انسانی زندگی کے لئے سب سے زیادہ اہم جُز پانی اور آکسجن ہے۔ بلکہ سائینس ہمیں بتاتی ہے کہ زمین کے ارتقائ عمل کے ابتدائ دور میں زمین پر پہلے پانی موجود تھا آکسیجن کی پیدائیش بعد میں ہوئ۔ ہم لوگ جو ایمان رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس عجیب و غریب کائنات کا خالق اور مالک ہے اسی نے زمین ، آسمان، سمندر، چاند، ستارے اور وسیع و عریض کائنات تخلیق کی۔ میں سائینس کو خدا کی طاقت سے جُدا نہی سمجھتا ہوں بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ خدا نے اپنی مقدس کتابوں میں تخلیق کائنات کے متعلق ہمیں بتایا سائینس اسے تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ سائینس بتاتی ہے کہ ہماری زمین کی تخلیق 4 اشاریہ 5 ارب سال قبل ہوئ۔ 3 اشاریہ 9 ارب سال قبل ہماری کہکشاں (گیلیکسی) میں کسی زوردار دھماکے کی صورت میں کسی ستارے کی تباہی کے بعد زمین پر شہابیہوں کی بارش شروع ہوئ یہ شہابیے زمین پر اپنے ساتھ کرسٹل کی شکل کے انتہائ چھوٹے ٹکڑے لارہے تھے جو نمک سے بھرے تھے اور زمین پر گرتے ہی مایع شکل اختیار کر رہے تھے۔
تقریبا بیس لاکھ سال تک یہ شہابیے اسی طرح زمین پر گرتے رہے اور آج آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو پانی آپ آج پی رہے ہیں اس کا ایک ایک قطرہ اربوں سال پرانا ہے۔ مگر اب یہ پانی جو کی زندگی کی علامت ہے نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ ہمارے ماحول میں آلودگی ہے۔ ویسے تو پانی ہماری زمین کے 70 فیصد حصے پر محیط ہے مگر پینے کے قابل پانی صرف تین فیصد موجود ہے جو کہ مضید کم ہورہا ہے۔ آج دنیا کی مجموعی آبادی میں ایک ارب لوگ پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی پیش گوئ کے مطابق 2030 میں پانی کی شدید قلت متوقع ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ملک اور شہر اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ کیپ ٹاؤن، بنگلور، استنبول، بیجینگ، ماسکو، قاہرہ، کراچی اور بہت سے بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا سامنا کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2030 تک تازہ پانی کی طلب 40 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ماحول میں آلودگی ہمارے پانی کو ضایع کر رہی ہے۔ بیجینگ شہر کا 40 فیصد پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ وہ صعنتی اور زریعئی استمال کے قابل بھی نہی رہا ہے۔ پاکستان میں خدا تعالیٰ نے وافر مقدار میں پانی فراہم کیا ہے ہمارے پاس دریا ہیں، جھیلیں ہیں گلیشئیرز ہیں، بارشیں ہیں مگر ان آبی وسائیل کو زخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہی ہیں۔ ہم اپنی بدبودار سیاست کی وجہ سے پانی جیسے بیش قیمت خزانے کو سمندرغرق کر رہے ہیں۔ بھارت طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کی دھمکی دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے ایک معاہدہ ہوا تھا جو سندھ طاس معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے ضامنوں میں ورلڈ بینک بھی شامل ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا بھارت کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔
جبکہ مغربی دریاؤں جن میں جہلم ، چناب اور سندھ کے پانی کا زیادہ حصہ پاکستان کے کنٹرول میں ہوگا۔مگر اب بھارت پاکستان کے پانیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ان علاقوں میں بھی ڈیم بنا رہا ہے جن میں اس کو اجازت نہی ہے۔ اور بہانہ یہ بنا رہا ہے کہ ہم بہتے پانیوں سے بجلی بنا رہے ہیں ان کو زخیرہ نہی کر رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کے دریا ریگستان بن سکتے ہیں ان حالات سے نکلنے کے لئے قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بہت سے ڈ یم سیاست کی نظر ہوچکے ہیں جیسے کہ کالا باغ ڈیم ہے ۔ عوام کو حقیقت بتانے کی ضروت ہے اور جو لوگ پانی پر سیاست کر رہے ہیں ان کا حقہ بند کریں یا نہ کریں مگر پانی بند کیا جانا چاہئے۔ کراچی کی عوام بوند بوند پانی کو ترس رہی ہے۔ میں پچیس سال قبل جب پاکستان سے نکلا تھا تب بھی یہ ہی حالت تھی جوکہ آج ہے بلکہ مضید ابتر ہو چکی ہے۔ کراچی والے اپنے ہی حصے کا پانی تلاش کرتے ہیں نہی ملتا تو اپنے ہی پانی کو خرید کر پیتے ہیں۔
پاکستان کی کوئ عدالت، کوئ محکمہ کوئ حکومت ان پانی مافیا کے خلاف کچھ نہی کر سکی ہے جو کراچی کا پانی سر عام بیچ رہی ہے۔ سندھ میں بھی پانی کی کمی کی وجہ سے آم کی فصل خراب ہونے کی اطلاعات ہیں۔ 60 فیصد آم کی فصل خراب ہو گئ ہے وجہ یہ ہی بتائ جارہی ہے کہ فصل کی پیداوار کے لئے پانی کی کمی ہوئ ہے جس سے کروڑوں لی لاگت کے آم خراب ہو گئے ہیں۔آم کی برآمدات سے کروڑوں کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ یہاں بھی سندھ حکومت وفاقی حکومت پر الزام لگا رہی ہے کہ انہوں نے سندھ کا پانی کم کر دیا ہے جس سے نہ صرف آم بلکہ دیگر پھلوں کی پیداوار متاثر ہوئ ہے۔
ہماری حکومتوں کی نالایقیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ محکمہ آبپاشی کا ایک افسر قتل ہوا ہے تو ابھی تک اس کی جگہ کسی دوسرے افسر کو تعنات نہی کیا گیا جس کی وجہ سے کسانوں کو پانی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ہماری صوبائ اور وفاقی حکومتوں کو اپنے سارے منصوبے پس پُشت ڈال کر صرف پانی کے زخیروں کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہیں۔ چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں جائں، دریاؤں کی صفائ کو ممکن بنایا جائے۔ اس سے پانی کی گنجائیش میں اضافہ ہوتا ہے۔ دریاؤں اور نہروں کے کناروں پر درخت لگائیں جایں ۔کیونکہ ان سے کنارے مضبوط ہوتے ہیں اور ان میں شگاف پڑنے کے خطرات کم سے کم ہوتے ہیں۔ پانی زندگی ہے اور خدا کی طرف سے نسل انسانی کے لئے انمول تحفہ ہے اس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے محفوظ کرنے کی ضروت ہے یہ ہماری آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس پانی ہوگا تو زندگی ہوگی۔ زندگی ہوگی تو مستقبل ہوگا۔ ورنہ خدا ہی حافظ ہے۔