تحریر : محمد قاسم حمدان انسان کی تخلیق ایک بوند پانی کی مرہون منت ہے۔ پانی انسان کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ آکسیجن۔ دنیا کے تمام چرند، پرند اور نباتات کے لئے پانی جزولاینفک ہے۔ انسانی حیات کی طرح سرسبز وشا داب، لہلہاتی فصلوں کے لئے بھی پانی رگ جان ہے، پانی بنا پورا پاکستان چولستان بن جائے گا۔ کوئلوں کی کو کو، پرندوں کی چہچہاہٹ، ہرنوں کی کلکاریاں اور جنگلی حیات کا دارومدار پانی سے ہے۔
پاکستان تو پانیوں کی سر زمین تھی گلیشئرز کی پگھلتی برف ،کشمیر جنت نظیر کی نیلگوں جھیلیں اور دریاوںکی شور مچاتی بپھرتی موجیں میدان میں داخل ہوتی ہیں تو اس دھرتی کا نام پنج آب ترتیب پاتا ہے ۔اسے شومئی قسمت کہئے کہ ہمارے پانیوں پر انسان دشمن بھارت نے ڈاکہ زنی کر دی ہے ۔بھارتی آبی جارحیت سے تحفظ،آبی ذخائر کی حفاظت اور اقوام عالم میں اس مسئلہ سے متعلق شعور وآگہی پیدا کرنے کے لئے 22مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔22دسمبر1992کواقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے ہر سال 22مار چ کودنیا میں پانی کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس مناسبت سے دنیا میں ہر سال پانی کی اہمیت اس کی ضرورت ،پانی کے وسائل کی ترقی اور اس کو ذخیرہ کرنے کی ضرورت بارے تحریری لٹریچر ،دستاویزی فلموں ،کانفرنسوں اور سیمیناروں کے ذریعے آبی منصوبوں کی حفاظت واہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت سات ارب افراد کو روزانہ خوراک اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد 2050میں نو ارب ہو جائے گی ۔آبادی میں اضافے سے صحت،تعلیم، خوراک کی طرح پانی بھی بنیادی مسئلہ بن گیا ہے ۔انسان خوراک اور دیگر مسائل سے تو کسی نہ کسی طرح نبٹ لیتا ہے مگر جہاں پانی نہ ہو وہاں زندگی کا نام موت ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کہ دنیا میں پانی کے ذخائر کا تناسب 60%رہ گیا ہے جو اگلے15 سالوں تک ہی استعمال ہو سکے گا ۔پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ممالک میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی ہی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک عشرے کے دوران 48 ممالک میں تین ارب افراد کو پانی کی کمیابی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔پاکستان جو کبھی بڑی مقدار رکھنے والا ملک تھا آج پانی کی شدید کمی کا شکار ہے اور اسے ریڈ زون میں گنا جانے لگا ہے ۔آج پاکستان کے دریا بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔wHoکے مطابق
پاکستان جیسے آبی قلت کے شکار ممالک میں 37 بیماریوں میں سے 21 کا تعلق گندے پانی اور سیوریج کے نظام سے ہے ۔تھر سمیت لاکھوں بچے ہر سال اسہال اور دیگر جان لیوا بیماریوں سے موت کالقمہ بن جاتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق تقریبا30لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی ہم ندی نالوں میں بہا دیتے ہیں ۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 85% شہری آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔اسی طرح جناح انسٹیٹوٹ کی رپو ر ٹ میں بتایا گیا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہر ایک پاکستانی کے لئے 5 ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھاجو 2011میں ایک ہزار 400 مکعب میٹر رہ گیا ،2014میں یہ مقدار ایک ہزار مکعب میٹر تھی اور 2025میں پانی کی یہ مقدار 550مکعب میٹر رہ جائے گی ۔پاکستان کے مقابلے میں امریکہ میں6000،آسڑیلیا میں 5500اور چین میں 2200مکعب میٹر پانی دستیاب ہے حالانکہ یہ ممالک بھی پانی کی کمی کا شکار ہیں پاکستان میں کمی کا اصل مجرم ہمارا اصلی دشمن بھارت ہے ۔بھارت کی آبی جارحیت کا مقصد پاکستان کو اکھنڈ میں ضم کرنا ہے اسی سوچ کے تحت انگریز کی ملی بھگت سے پاکستان میں شامل علاقوں کو انڈیاکو دے کر ہمارے پانی کے سوتوں کشمیر پر قبضے کا راستہ دیا گیا۔ اس وقت بھارت ہمارے پانی پر قابض ہے اس لئے اس کی پانی جمع کرنے کی صلاحیت 33%جبکہ ہماری استعداد صرف 10%ہے .بھارت اس وقت 114سے زاہد ڈیم بنا چکا ہے اس کے برعکس پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے دو بڑے ذرائع منگلا اور تربیلا ہیں ۔1967 میں بننے والے منگلا کی اونچائی 454فٹ اور لمبائی 100300فٹ ہے۔
Water Issue
یہاں دس پاور جنریشن پلانٹ ہیں جن سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔1971 میں تربیلا کی تعمیر کی گئی اس کی اونچائی 485فٹ اور یہ ڈھائی سومربع کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے یہاں سے 3500 میگا واٹ بجلی ملتی ہے۔ ہمارے موجودہ ڈیموں میں پانی کی گنجائش15,6 ملین ایکڑفٹ تھی جو اب 12ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے ۔ڈیم نہ ہونے سے ملکی معیشت کو سالانہ 36 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے ۔بجلی کی زیادہ پیداوار اسی صورت ممکن ہے کہ بھارت کو آبی جارحیت سے روکا جائے ۔مودی اور آر ایس ایس کے بھگوا دہشت گرد 1960کے سندھ طاس معاہدہ کی دھجیاں اڑانے اور ہمارے دریاوں میں پانی کی بجائے خون بہانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں انڈیا دریا ئے جہلم کا پانی روک کر اس پر 400میگا واٹ بجلی کی پیداوار کا حامل کرشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔بگلہیار ڈیم بھی بھارت کی آبی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس سے دریائے چناب 98%خشک ہو چکا ہے اس کی وجہ سے چار لاکھ ایکڑ سے زاہد اراضی بنجر ہو چکی ہے ۔ ہماری 70 %آبادی کا انحصار زراعت پر ہے جس کے لئے دریا کا پا نی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ انڈس ڈیلٹاریگستان میں تبدیل ہو رہا ہے جہاں لاکھوں ایکڑ زمین تباہ ہو چکی ہے ۔آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے ۔بھارت ہماری تباہی کا کوئی موقع کبھی ضائع جانے نہیں دیتا جب ہمیں گندم اور چاول کی فصل کے لئے پانی درکار ہوتا ہے تو وہ ہمارا پانی روک لیتا ہے اور جب مون سون میں پانی وافر ہو جاتا ہے تو وہ پانی چھوڑ کرہمیں سیلاب سے دو چار کر دیتا ہے۔
پاکستان میں 1950سے 2013کے دوران شدید قسم کے 21 سیلابوں سے گیارہ ہزار 572افراد لقمہ اجل بنے. 2010کے سیلاب میں ہلاکتوں کی تعداد 1985،تباہ شدہ مکانات کی تعداد سولہ لاکھ8184،مالی نقصان دس بلین ڈالرجبکہ ایک ہزار مربع کلو میٹر رقبہ متاثر ہوا ۔بھارت اس وقت چار ہزار ڈیم اور بیراج بنا چکا ہے اور ڈیڑھ سو ڈیم اب بھی زیر تعمیر ہیں ۔پاکستان میں جب بھی کوئی ڈیم بننے لگتا ہے تو بھارت شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے لیکن وہ خودکشمیر جیسے متنازعہ علاقے میںآٹھ لاکھ فوجی سنگینوں کے پہرے میں کشمیریوں کے خون سے ڈیم بنانے میں جتا ہوا ہے۔
کالا باغ کو بھارت نے متنازعہ بنانے میں اربوں ڈالر خرچ کئے اسی طرح ہماری ہر حکومت نے اس پہلو پر انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا۔یہاں افتتاحی تختیاں لگنے کے سوا کچھ نہ ہوا ۔گزشتہ روز میاں صاحب نے کرم تنگی ڈیم کی وزیرستاں میں بنیاد رکھی ہے جس سے ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے اس ڈیم پر 23ارب ڈالر لاگت آے گی جبکہ اس سے ایک سو میگا واٹ بجلی بنے گی جس سے وزیرستاں کے علاقے میںز رعی و صنعتی انقلاب آئے گا۔میاں صاحب نے یہ مژدہ جاں فزا بھی سنایا کہ بھاشا ڈیم پر بھی اسی سال کام شروع ہو گا ۔اس پر 116ارب رقم خرچ ہو گی اور ساڑھے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی ۔ترقی کے اس عمل سے خوف وفساد اپنی موت آپ مر رہا ہے تاریک رات کو گرچہ روشن دن میں بدلنا آسان نہیں ہوتا لیکن آج میری قوم پھر سے زندہ رہنے کے لئے انگڑائیاں لے رہی ہے آیئے:پانی کے اس عالمی دن کے موقع پر عزم کریں کہ سب مل کر مایوسیوں کے اندھیروں میں امیدوں کے چراغ جلایئں گے اور کشمیر کی آزادی سے اپنے دریاوں میں خون نہیں بلکہ موتیوں جیسا اجلا پانی لاکر ملک کو بنجر وصحرا بننے سے بچایئں گے۔ان شا اللہ