تحریر : انجم صحرائی ابھی گذرے کل کی بات ہے جب عالمگیر خان نے کراچی میں کچرے اور بغیر ڈھکنوں کے سیوریج گٹروں کے کھلے مین ہولوں کی طرف ارباب اختیار و اقتدار کی توجہ مبذول کرانے کے لئے ایک منفرد اور انو کھی آ گہی مہم شروع کی۔ شروع شروع میں سڑ کوں اور مین ہول پر بنے اس وقت کے وزیر اعلی سائیں کی تصویروں کو مذاق تصور کرتے ہوئے حکومت نے سنجید گی سے نہ لیا لیکن جب وزیر اعلی ہائوس کے عقب میں بنے سیوریج گٹر کے کھلے میں ہول پر سائیں کی تصویر بنی تو معاملہ حکومتی رٹ پر آ گیا ظاہر ہے سب کچھ برداشت ہو سکتا ہے حکومتی رٹ کے خلاف چیلنج برداشت نہیں ہو سکتا اور Fix it مہم کے آ رگنائزر عالمگیر خان کو ان کے ڈرائیور سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ Fix it کا کیا بنا ، عالمگیر خاں کے جذ بے آج کیسے ہیں لیکن اخبارات اور میڈ یا کے ذریعے یہ آ گہی ضرور رہی کہ کراچی میں کچرے کے ڈھیر زیادہ ہو گئے ، سیوریج کے بغیر ڈ ھکنوں کے مین ہولوں کی تعداد پہلے سے بڑھ گئی ، پانی کی قلت کی شکایات دگنی ہو گئیں اور لوڈ شیڈ نگ اتنی زیادہ ہو گئی کہ جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی بھی دھرنے پہ اتر آ ئے۔ اس حقیقت کے با وجود کہ کراچی کی سیاست میرا موضوع نہیں لیکن شہر کے ان سلگتے مسائل پر میری ہمدردیاں نہ صرف کراچی کے شہر یوں بلکہ پاکستان کے تمام علاقوں میں بسنے والے کروڑوں پا کستا نیوں کے ساتھ ہیں ۔کہ یہی مسائل میری گلی ، میرے محلے ، میرے شہر اور پورے پا کستان کے عام شہریوں کا مقدر بنے ہو ئے ہیں۔
پانی ، بجلی اور کچرے سمیت کراچی شہر کے ہاٹ ایشوز پر سندھ حکومت کے روائتی رویے کے مقابلہ میںسید کمال کی اپیل پر کراچی کے لاکھوں شہریوں کا احتجاج بہت منفرد تھا ، یہ شائد کراچی کے شہریوں کا یہ پہلا احتجاج تھا کہ سر کار کی گولی لاٹھی کے مقابلہ میں نہ تو کسی نے پتھر پھینکا اور نہ ہی مظاہرین نے گلیوں میں چھپ چھپ کر ٹولیوں کی شکل میں پو لیس والوں کے خلاف چا ند ماری کی ۔ یہ احتجاج اس لئے بھی انو کھا اور منفرد تھا کہ قیادت نے سرکار کی دعوت پر وزیر اعلی ہائوس کے پر شکوہ ٹھنڈے ٹھار کمرے میں مذاکرات کی دعوت ٹھکراتے ہو ئے کھلی سڑک پر مسائل سے ستائے ہو ئے عوام کے سامنے مذاکرات کئے ۔ اس مظاہرے میں قائد اپنے بچوں پر ہونے والی شیلنگ پر پولیس کے اعلی افسر کے سامنے چیختے چلاتے تو نظر آ ئے لیکن نہ تو ان کا ہاتھ ا ٹھا اور نہ ہی اس کے کار کنوں نے اپنے قائد کی حفا ظت کے لئے پو لیس کو دھکے دئیے اور نہ ہی پو لیس کے گریبان پکڑے اور نہ ہی پو لیس والوں کے خلاف نعرے لگائے کہا جا سکتا ہے کہ شا ہراہ فیصل پر ہونے والی عوام کے جم غفیر اور پولیس کے درمیان یہ ایک یکطرفہ جنگ تھی جو بظاہر پولیس نے بغیر کسی مزا حمت کے جیت لی اور جیت کی خوشی میں آ رام سے بریانی کی ضیافت اڑائی۔
سید کمال سمیت پی ایس پی قیادت اور کار کنوں کی گرفتاری کے بعد سندھ حکو مت کی طرف سے میڈ یا پر جاری ہونے والا بیان مجھ جیسے کم علم اور کم فہم ایک عام شہری کے لئے بھی خا صا مضحکہ خیز تھا جس میں کہا گیا تھا کہ “حکومتی رٹ کو چیلنج نہیں ہو نے دیا جائے گا “مجھے اس بیان کی منطق سمجھ نہیں آ ئی کیا پیاسے لو گوں کا پانی مانگنا ، لوڈ شیڈ نگ جیسے گھمبیر مسئلہ کو اجا گر کرنا اور کراچی میں کچرے کے ڈھیروں کے خلاف آ واز بلند کرنا حکو متی رٹ کو چیلنج قرار دیا جا سکتا ہے ؟ میرا نہ ایس پی ایس سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی مجھے سید کمال سے کوئی واسطہ ، لیکن کراچی سے سینکڑوں کلو میٹر دور جنوبی پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقہ میں بیٹھے ٹی وی چینل پر ان سماجی اور معاشرتی مسائل پر احتجاج کرتے نہتے اور پر امن شہر یوں پر عوامی ، جمہوری اور انسانی حقو ق کے بالا دستی کی دعویدارسندھ حکومت کی لاٹھی گولی اور شیلنگ پر مبنی یہ بو کھلاہٹ دیکھتے ہو ئے مجھے افسوس اور دکھ ہو ا۔
کیا شہر یوں کی طرف سے زندگی کی ضروریات کا مطا لبہ کرنا حکو متی رٹ کو چیلنج کر نا ہے یہ ہے وہ سوال جس کا جواب مجھے نہیں مل رہ رہا ؟ قا ئد عوام شہید ذو الفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی کی تو ابتدا ہی انسانی زند گی کی بنیادی ضرورتوں “روٹی کپڑا اور مکان ” کی تر حیحا فراہمی کے نکات پر ہو ئی یقینا آج اگر بھٹو زندہ ہو تے تو پانی ، لوڈ شیڈنگ ، کرپشن ، بے روزگاری اور عدل کا نا منصفانہ نظام جیسے سلگتے شہری اور عوامی مسا ئل پی پی پی کی سیاسی جدو جہد کے بنیاد ہو تے لیکن افسوس یہ ہے کہ ماضی میں روٹی کپڑا اور مکان کے فلسفہ سے اپنی سیاست کا آ غاز کر نے والی پیپلز پارٹی کے حکمران طبقہ کو آج پانی مانگنے والے ، کچرے اور لوڈ شیڈنگ سے ستا ئے ہو ئے شہر یوں کا پر امن احتجاج حکومتی رٹ کے خلاف چیلنج نظر آتا ہے۔کیوں ؟