بنگلہ دیش اور پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر برطانوی استعمار سے اکٹھے اورایک ہی نام سے آزاد ہوئے تھے۔بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا وسطی ملک ہے اور برصغیر کے شمال مشرق میں واقع ہے۔لفظ ”بنگلہ دیش”کا مطلب بنگالیوں کی سرزمین ہے۔یہ مسلمان اکثریتی آبادی کاایک دریائی ملک ہے جس کا کل رقبہ ساڑھے پچپن ہزار مربع میل ہے۔آبادی کے لحاظ سے اس ملک کاشمار دنیاکے بڑے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایک مربع میل کے علاقے میں 1900افرادرہائش پزیر ہیںاور کہیں کہیں آبادی کی کثرت کے باعث ایک مربع میل کے علاقے میں رہنے والوں کی تعداد 2800افراد تک بھی پہنچ جاتی ہے۔یہ ملک بھارتی ریاستوں میں گھرا ہواہے،بنگلہ دیش کے مغرب میں بھارتی ریاست بنگال ہے ،شمال میں ”آسام ”نامی ریاست ہے اورمشرق میں تری پورہ اور میزورام نامی بھارتی علاقے ہیں۔
جبکہ جنوب مغرب میں بنگلہ دیش کی سرحدیںبرما سے ملتی ہیں اور جنوب میں خلیج بنگال کاساحل ہے۔استعمار سے آزاد ی کے بعداس خطے کانام مشرقی پاکستان تھا اور یہ پاکستان کا ایک صوبہ تھا،جب تک مشرقی پاکستان تھااس وقت تک پاکستان اسلامی دنیاکا سب سے بڑا ملک تھا۔1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی افواج کی شکست کے بعد یہ خطہ پاکستان سے الگ ہوکربنگلہ دیش کہلانے لگا۔اس کا دارالحکومت ”ڈھاکہ”ہے۔
بنگلہ دیش کی سرزمین کی بہت خصوصت وہاں کے بہتے ہوئے دریا ہیں،یہ صرف جغرافیائی خصوصیت ہی نہیں ہے بلکہ دریاوہاں کی معاشرتی اور معاشی زندگی کا بھی اہم حصہ ہیں۔بعض اوقات ان دریاؤں سے امڈتاہوا سیلاب بنگلہ دیش کے جملہ ڈھانچوں کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔اس لحاظ سے جون سے ستمبر تک کا دورانیہ بنگلہ دیش کے باسیوں کے لیے بعض اوقات بہت بھاری ہوتا ہے۔
جب دریا اپنے ساحلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ان دریاؤں کے بغیر بھی گزارہ نہیں کہ وہاں کی فصلیں انہیں کی مرہون منت ہیں اور اگر سیلاب بہت زیادہ اور شدت سے آئے تو تباہی بھی بنگلہ دیش کا مقدر بن جاتی ہے۔بنگلہ دیش کے دریاؤں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،گنگا،مگنا،جمنا،شمالی بنگال کے دریا اور چٹاگانگ کی پہاڑیوں سے بہہ نکلنے والے دریا۔یہ دریااور ان سے نکلنے والی شاخیں اور انکی مزید شاخیں گویا ایک لکیروں کا نقشہ ہے جس نے پورے بنگلہ دیش کو اپنے سحر میں لپیٹا ہے اور اس سرزمین کو اپنی لہروں سے سیراب کرتا ہے۔
بنگلہ دیش کے ان دریاؤں کوپانی فراہم کرنے والی مون سون ہوائیں بنگلہ دیش کے لیے ایک اور قدرتی تحفہ ہیںاور تقریباََ 60سے 200انچ تک سالانہ باشیں یہاں مختلف علاقوں میںبرستی ہیں۔اس لحاظ سیء بنگلہ دیش کی آب و ہوا مرطوب اور نمی سے بھرپورہے جبکہ موسم کے اعتبار سے یہ ملک گرم بلکہ بہت ہی گرم علاقے کا حصہ ہے جہاں 33سے 36ڈگری سینٹی گریڈ تک اوسطاََموسم گرما کا درجہ حرارت رہتا ہے۔
گرمیوں اور سردیوں میں اور ہر موسم میں بہت تیزوتندآندھیاں اور طوفان اس سرزمین پر آتے رہتے ہیں اور بیشتر کا درہ خلیج بنگال ہے۔بعض طوفانوں کی رفتار100میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث ساحلوں اورجزیروں پر بے پناہ تباہی پھیلتی ہے اورہر پانچ دس سالوں میں سمندری طوفانوں کا شکار ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔پانی کی ثقافت کے باعث بنگلہ دیش کے اکثرلوگ کشتیوں کے مسکن میں ہی ساری عمر گزارتے ہیںاور اس طرح کے طوفان ان کشتیوں کی کثیر تعداد کو تہ و بالا کر دیتے ہیں۔
Bangladesh Rain
دریاؤں اور بارشوں کے باعث بنگلہ دیش کی 15%زمین جنگلات پر مبنی ہے اور دنیا کے بہترین اور مہنگے ترین پھل یہاں کثرت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ان پھلوں میں آم،جیک فروٹ،بمبو،بیٹل نٹ،کوکونٹ اور ڈیٹا پلین جیسے پھل بھی شامل ہیں۔کاشت کاری تقریباََ سارے ملک میں ہی ہوتی ہے سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ساتھ اس سرزمین پر پھولوں کی کاشت بھی بہت وسیع پیمانے پر کی جاتی ہے۔
چٹاگانگ کے وسیع جنگلات میں ہاتھی بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں،ہرنوں کی بہت نایاب نسلیں شیراورچیتے جیسے جانور،ریچھ اورگیدڑ جس کی آوازوں پر بنگالی زبان میں بہت سی کہاوتیں مشہور ہیں یہاں کے مشہور اور بکثرت پائے جانے والے جانور ہیں۔ان علاقوں میں بڑے بڑے اورخونخوارجانورون کے شکار کے قصے زبان زد عام و خاص ہیں۔ دنیا بھر کے شوقین شکاری اکروبیشتر بنگلہ دیش کے ان جنگلات کا رخ کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی 80%آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی کم از کم شہری آبادی والا ملک بنگلہ دیش ہی ہے۔ملک تین ہی بڑے بڑے شہر ہیں ڈھاکہ جو کہ دارالحکومت ہے،چٹاگانگ جو ملک کی بہت بڑی بندرگاہ ہے اور کھلناجو ایک صنعتی شہر ہے۔بنگلہ دیش میں بہت سی قوموں اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں،”ویداس”نامی نسل کے لوگوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ سب سے پہلے اس سرزمین میں داخل ہوئے۔
لیکن بہرحال یہ آریاؤں کے بعد کی بات ہے۔ایک خیال بھی ہے کہ یہاں آباد ہونے والے اولین قبائل آسٹریلیا کی سرزمین سے وارد ہوئے تھے اور گوری رنگت کے حامل تھے۔آٹھویں صدی مسیحی میں ہی یہاں اسلام پہنچ گیاتھا۔قرین قیاس ہے کہ جو تاجر انڈونیشیا میں طلوع اسلام کاباعث بنے انہی کی برکت سے بہت جلد یہاں بھی اسلام کی کرنیں پہنچ گئیںلیکن بعض تحقیقات کے مطابق تیرہویں صدی میں اسلام یہاں متعارف ہوااور اب 85%آبادی مسلمان ہے۔عیسائیوں،ہندؤں اور بدھوں کی بھی کثیر تعداد یہاں موجود ہے۔
چٹاگانگ کی پہاڑیوں پر چار قسم کے قبائل ہیں جو اپنے ہی عقیدے کے مالک ہیں،چکما،مرما،طپرہ اور مورو۔ان کے درمیان کبھی کبھی شدید جھڑپوں کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔بہرحال اکثریت بنگالی بان ہے ،بنگالی یہاں کی 98%آبادی کی زبان ہے اورسنسکرت سے مولودہے۔ بنگلہ دیش کی 60%آبادی فارمنگ،چائے اور پٹ سن کے روزگار سے وابسطہ ہے،یہی تین اشیا پر بنگلہ دیش کثیرآمدات کا انحصارہے۔چاول یہاں کی ایک اور قابل ذکر فصل ہے۔
فصلوں کا انحصار مون سون پر ہے،جب بہت اچھی مون سون ہو تو فصلیں بھی بہت اچھی اور اگر مون سون کمزور رہے تو فصلیں بھی مایوس کن رہتی ہیں۔یہاں کی پیداوار میں مچھلی کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ یہ جانور وہاں کی عام خوراک کا بھی حصہ ہے۔چاول اور مچھلی بنگلہ دیش میں ایسے کھائے جاتے ہیں۔
Bangladesh Oil
جیسے برصغیرکے دیگر علاقوں میںآٹااور گوشت۔1986کے دوران بنگلہ دیش میں تیل اور کوئلے کے بھی وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔سفر کے لیے جہاں سڑکیں اور ریلوے کانظام ہے وہاں دریاؤں کے راستے کشتیوں پر بھی سفر کیاجاتا ہے اور یہ دوعلاقوں کے درمیان سفر کا سستا ذریعہ ہے۔سائکل رکشااور موٹر رکشا کے ساتھ ساتھ بیل گاڑیاں اور تانگے بھی بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں ،ان روایتی سواریوں کے باعث جہاں پٹرول اور ڈیزل کی بچت ہوتی ہے وہاں فضا بھی خوشگوار رہتی ہے اور آلودگی میں اضافہ نہیں ہوتا۔
1972کے آئین کے مطابق بنگلہ دیش میں پارلیمانی طرز حکومت ہے ۔1975اور1982میں یہاں دستورمعطل کر کے تومارشل لاء لگادیاگیا۔1986میں مارشل لاء اٹھا لیاگیا اور جمہوریت بحال ہوئی۔مملکت کو مرکز،صوبے ،ڈویژن اور ضلعوں میںتقسیم کیاہواہے۔عدالتی نظام بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بعد چھوٹی عدالتوں پر مشتمل ہے۔بنگلہ دیش کانظام تعلیم ابتدائی،ثانوی اور اعلی تعلیم پر مشتمل ہے۔
ثانوی تعلیم کو مزید تین درجات میں قسیم کیاہواہے،جونئرسیکنڈری،ہائی اسکول اور ہائرسیکنڈری اسکول۔ملک میں 600سے زائد کالجز ہیں جو زیادہ تر ڈھاکہ یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہیں۔ملک میں اور بھی جامعات ،میڈیکل کالجز،انجنئرنگ کالجز اور دیگر فنی تعلیم کے ادارے بھی موجود ہیں۔ٹونگی میں ایک اسلامی یونیورسٹی بھی قائم ہے۔
بنگلہ دیش” پاکستان کاحصہ تھا،سچے پاکستانی آج بھی بنگلہ دیش کو پاکستان کاحصہ ہی سمجھتے ہیں۔1971ء کی فوجی کاروائی کے نتیجے میں الگ ہونے والا مشرقی پاکستان ،آج بھی سچے اور پکے پاکستانیوں کے دلوں میں دھڑکتاہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ1947ء کو بننے والے پاکستان کوکوئی پاکستانی بھلا سکے۔کتنی ہی دفعہ ہم نے سنااور پڑھا کہ پاکستانی قیادت جب بنگلہ دیش کی سرزمین پراترتی ہے تو انکے استقبال کے لیے آنے والی کتنی ہی آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں۔تحریک پاکستان ،قیام پاکستان،استحکام پاکستان اورالبدر اور الشمس کی قربانیاں بھلا کوئی پاکستانی کیسے بھلا سکتا ہے۔
1971ء مین بھی بنگلہ دیش نامنظور تھا اور آج بھی بنگلہ دیش سمیت ستاون اسلامی ملکوں کی سرحدیں نامنظور ہیں۔کل امت ایک وحدت ہے،ایک جسم ہے اور ایک ہی فکروسوچ اور ایک ہی ایمان ہے۔حکمرانوں کے مفادات اور فوجوں کی بغاوتیں امت کو تقسیم نہیں کر سکتیں۔استعماراور طاغوت کے سحر بہت جلد ٹوٹ کر بکھرنے والے ہیںاورعالمی افق کے اس پارسے بہت جلد امت مسلمہ کو ایک تسبیح میں پرونے والا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے اور مشرق و مغرب کے ماضی کے رشتے پھر لوح تجدیدپروحدت والحاق کی قلم سے لکھے جانے والے ہیں،انشاء اﷲ تعالی۔ تحریر : ڈاکٹر ساجد خاکوانی drsajidkhakwani@gmail.com