حیدر آباد (جیوڈیسک) قانون پر عمل داری حکومت اور ان کے ماتحت اداروں کی ہیں۔ حکومت نے آبی گزرگاہوں پر تجاوزات اور قبضوں کے خلاف قانون تو بنادیا لیکن تین سال گزر جانے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
پنجاب میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں نے سندھ میں 2010ء میں آنے والے سیلاب کی یاد تازہ کردی ہے۔ جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور لاکھوں ایکٹر اراضی زیرآب آگئی تھی۔
اس تباہی کی بڑی وجہ حفاظتی بندوں کے ٹوٹنے کے علاوہ آبی گزرگاہوں اور سیم نالوں پر تجاوزات تھیں۔ لینڈ مافیا نے کچے کے بعد اب آبی گزر گاہوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ کوٹری بیراج ، جامشورو ، قاسم آباد اور لطیف آباد سے گزرنے والی آبی گزرگاہوں پراب ناصرف لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں بلکہ بلکہ رہائشی اسکیمیں بھی بنائی جارہی ہیں۔
پانی کی وہ گزر گاہیں جہاں سے 2010 میں 9 لاکھ کیوسک سے زائد کا سیلابی ریلہ گزرا تھا اب یہاں لینڈ مافیا قابض ہے۔ یہاں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ غریب ہیں کہاں جائیں۔ گزشتہ سیلاب کی تباہی سے پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس حد تک سبق سیکھا کہ سندھ اسمبلی سے سندھ ایرگیشن ایکٹ 2011 منظور کرالیا تاکہ قدرتی برساتی نالوں، دریاوں اور دوسری آبی گزرگاہوں پر تجاوزات کو ختم کیا جاسکے لیکن قانون پر عمل کیا ہوتا۔
انتظامیہ اور متعلقہ اداروں نے ان قبضوں پر آنکھیں بند کرلیں۔ محکمہ آبپاشی کا کہنا ہے کہ قابضین کو ہٹانا ہماری نہیں ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ صوبائی وزیر شرجیل میمن نے ان قبضوں پر محض افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی زمہ داری ہے کہ وہ انہیں ہٹائے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ناصرف حفاظتی بندوں کو مضبوط کیا جائے بلکہ پانی کے راستے پر قائم تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے تاکہ دریا کا پانی قدرتی آبی گزر گاہوں سے باآسانی نکل سکے۔