وزیرآباد (نامہ نگار) پوش علاقوں میں ڈاکٹرزنے پرائیوٹ پریکٹس کی آڑ میں عوا م کودونوں ہاتھوں سے لوٹناشروع کررکھاہے سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی برائے نام دینا معمول بن گیا، ڈاکٹرز پرائیویٹ کلینکوں پر رات گئے تک مریضوں کولوٹنے میں مصروف رہتے ہیں ذرائع کے مطابق پرائیویٹ پریکٹس میں مصروف ان ڈاکٹرز کے پاس کئی کئی روزتک غریب مجبورعوام ٹوکن لیکر علاج کرانے پرمجبور ہیں اورفی مریض 600 تک وصول کئے جارہے ہیں ۔ سرکاری ڈاکٹروں کی مریضوں کے علاج معالجہ میں مجرمانہ غفلت لاپرواہی عدم دلچسپی اور مریضوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ پروزیرآباد کے شہری پھٹ پڑے ،انہوں نے ہسپتال کے ڈاکٹروں کے حاکمانہ رویہ ،ادویات کی عدم فراہمی مریضوں کو سال ہا سال سے لاہور ریفر کرنے کے احکامات کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے اور ان کا کہنا ہے کہسرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز صرف تنخواہیں لینے کے لیے ہسپتال میں آتے ہیں اور دوران ڈیوٹی بھی مریضوں اور ان کے ورثاء کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کرکے ان کے زخموں پر مزید نمک پوشی کرتے ہیں حالانکہ ڈاکٹرز معاشرے کا مسیحا تسلی تشفی اور امید کی کرن کا دوسرا نام ہے لیکن اب ان کی جگہ ڈاکٹرنا امیدی لوٹ مار اور مریضوں کے لیے پریشانی کی علامت بن گئے ہیں۔ شہریوں نے بتایا کہ آئوٹ ڈور سمیت ہسپتال کے وارڈ ز میں مریضوں کو مفت ادویات فراہم نہیں کی جا تیں، زیادہ تر نسنحہ جات پر ایسی ادویات لکھی جاتی ہیں جو ہسپتالوں میں دستیاب نہیں ہوتیں ،مختلف بیماریوں کی تشخیص کیلئے لکھے جانے والے ٹیسٹ بھی ہسپتالوں میں نہیں کئے جاتے ، ایکسرے تک قریبی لیبارٹریوں سے کروائے جاتے ہیں جہاں ان کوالیفائیڈ عملہ مریضوں سے بھاری رقوم بٹو ر کر انہیں غیر معیاری ٹیسٹ تھما دیتا ہے۔پرائیویٹ میڈیکل سٹورز اور لیبارٹری مالکان کیساتھ مہنگی ادویات فروخت کروانے کیلئے مبینہ طور پرڈاکٹر حضرات کا کمیشن کا معاملہ طے ہوتا ہے ۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر ز مریض کی اتنی تیزی سے تشخیص کرتے ہیں کہ جیسے قصائی بکرے کو ذبح کر رہا ہو ،انہوں نے کہا کہ مریضوں کو ڈاکٹرز اپنے پرائیویٹ ہسپتال میں آنے کے لیے مختلف حیلوں بہانوں سے مجبور کرتے ہیں نہ آنے کی صورت میں اگلے روز مریض کو چیک ہی نہیں کیا جاتااتھارٹی کی طرف سے ڈاکٹروں کو مریض کی فوری ٹریٹمنٹ ادویات کی فراہمی کا واضح طور پر حکم بھی جاری کر رکھا ہے مگر ہسپتال کے منہ زور ڈاکٹر وں کے آگے اتھارٹی بے بس نظر آتی ہے،سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو حقیقی معنوں میں عوام کا مسیحا بنانے سرکاری ڈیوٹی دیانت داری کے ساتھ سرانجام دینے اور ان کی ہسپتال میں حاضری یقینی بنانے کے لیے فوری نوعیت کے اقدامات اٹھائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرآباد (نامہ نگار) معاشرے میں انسانیت کے معیار کا گراف تیزی سے تنزلی کی جانب بڑھنے لگا ۔ڈاکٹروں کے نجی کلینکوں کی طرح نجی سکولز بھی لوٹ مار کے اڈے بن گئے۔ بھاری فیسوں کے علاوہ مختلف مدات میں طلباء وطالبات کے والدین کو لوٹنا معمول بنا لیا۔ ملک کے دیگر شہروںکی طرح وزیرآباد اور گردونواح میں بھی پرائیویٹ سکولز کا جال بچھا ہوا ہے۔ بیشتر سکول ان رجسٹرڈ ہیں جن کے مالی معاملات کا کوئی ریکارڈ کہیں درج نہیں ہوتا اور وہ رجسٹرڈ سکولز کیساتھ امتحانی دنوں میں الحاق کرکے طلباء وطالبات کے امتحانات کرواکے انتظامیہ کو جل دینے میں مصروف ہیں۔ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ ایسے تعلیمی اداروں میں بھاری فیسوں کی وصولی کے علاوہ سیکیورٹی چارجز، لائبریری فیس، بلڈنگ چارجز، اسپورٹس فنڈز ،کمپیوٹر فیس اور دیگر خود ساختہ تہواروں کو منانے کے نام پر ہزاروں روپے ماہانہ ہتھیائے جاتے ہیں۔ ان سکولوں کو چلانے والے پرنسپل اور ڈائریکٹرز وغیرہ نا تو خود پروفیشنل قابلیت کے حامل ہوتے ہیں نہ ہی معلمین ومعلمات اس اہل ہوتے ہیں کہ وہ طلباء وطالبات کو مناسب تعلیمی رہنمائی فراہم کرسکیں۔سرکاری ، انتظامی پوچھ گچھ سے بچنے کی خاطر پرائیویٹ اسکولزمالکان نے اپنی ایسوسی ایشنز بنا کر مافیا کی صورت اختیا ر کر رکھی ہے۔سرکاری سکولوں میں داخلے نہ ملنے اور مناسب تعلیمی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے ، بچوں کے والدین پریشانی کا شکار اور ملکی تعلیمی نظام کے آگے بے بس ہو کر غیر معیاری تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کروانے پر مجبور ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں نے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی بچوں کی فیسوں میں 20سے 60 فیصد تک کا اضافہ کر دیا ہے اور فیسوں کے علاوہ سیکیورٹی چارجز کے نام پر 200روپے لائبریری فیس کے نام پر 50روپے ، بلڈنگ چارجز کے نام پر 200روپے ، اسپورٹس فنڈز کے نام پر 50 روپے اور کمپیوٹر لیب کے نام پر 200 روپے تک بٹورنا شروع کررکھے ہیں ، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے چند پرائیویٹ اسکولوں کو چھوڑ کر اکثر پرائیویٹ اسکولوں میں تو کھیلنے کی جگہ تک موجود نہیں ہے اور نہ ہی سالانہ اسپورٹس ڈے منایا جاتا ہے ،جبکہ گرمیوں کی چھٹیوں کے نام پر ابھی سے بھاری فیسوں کی وصولی کاسلسلہ شروع کردیا گیا۔ مختلف سکولوں میں میں لائبریری نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی مگر والدین کو مختلف حیلوں بہانوں ہر ماہ دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے، والدین نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ پرائیویٹ اسکولز مالکان کی زیادیتوں کانوٹس لیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرآباد (نامہ نگار) شہر میں ناقص جوتوں کی فروخت کا معاملہ عروج پر درجہ دوم کا سستے داموں خریدا گیا مال دکانوں کے شو کیسوں میں سجا کر شہریوں سے ایک نمبر مال کی قیمت وصول کرلی جاتی ہے۔ ایک دو روز میں ہی جوتوں کے ٹوٹنے کی شکایات لیکر جانے والے گاہکوں سے بدتمیزی اور غنڈہ گردی کے علاوہ سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے اور مال کی واپسی یا تبدیلی سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ شہر میں گزشتہ کچھ عرصہ سے جوتوں کی فروخت میں دو نمبری اور لوٹ مار کا دھندہ عروج پر ہے ۔دکاندار حضرات لاہور اور دیگر شہروں سے سستے داموں خرید کئے گئے ناقص مال پر اسٹیکروں کی تبدیلیوں اور معروف کمپنیوں کے لیبلز چھپوا کر اسے دھوکہ دہی سے ایک نمبر بنا کر بھیجتے ہیں۔ گاہک مہنگے داموں خرید کئے گئے جوتے گھر لیکر جاتے ہیں جو استعمال کے اگلے چند گھنٹوں میں جواب دے جاتے ہیں۔ ناقص مال کی واپسی پر بااثر دکانداروں کی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس پر شہری حلقے سراپا احتجاج ہیں۔ کرامت علی اور عدیل احمد خان نامی شہریوں نے مختلف دکانداروں کی ناقص جوتوںکے معاملہ بارے شکایات کرتے ہوئے بتایا کہ دکاندار حضرات ناقص جوتوں کی واپسی کی بجائے دھمکیاں دیتے ہیں۔ عوامی، سماجی حلقوں نے حکام بالا سے دونمبری کا کاروبار کرنے والوں، گاہکوں کو دھوکہ دینے والوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرآباد (نامہ نگار) شہر کی خوبصورتی کے نام پر لگائے گئے درخت سوکھ گئے، لاکھوں کروڑوں کا نقصان، انتظامیہ نے معاملہ سے صاف نظریں ہٹالیں۔ شہریوں کا تحقیقات کا مطالبہ۔ وزیرآباد شہر کو خوبصورت بنانے کے نام پر گزشتہ چند سالوں میں وزیرآباد مولانا ظفر علی خاں بائی پاس چوک سے لاڈو پلی سیالکوٹ روڈ تک سڑکوں کی درمیانی جگہوں پر قیمتی درخت لگوائے گئے جس میں کھجوریں اور پام کے قیمتی درخت شامل تھے او ان درختوں کی خریداری کی مد میں لاکھوں روپے نکلوائے گئے۔ بیشتر کھجوروں کے درخت پہلے ہی سے سوکھے ہوئے تھے جبکہ باقی انتظامی عدم توجہی کی وجہ سے سوکھ گئے اس طرح درختوں کی مد میں لاکھوں روپے کا نقصان کیا گیاہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک ہی مقام پر دو سے تین بار درختوں کا لگانا شو کرکے چونا لگایا گیا ہے۔ شہریوں نے درختوں کے معاملہ میں انتظامی عدم توجہی اور کرپشن پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ارباب اختیار سے صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرآباد (نامہ نگار) ایم ایس ڈاکٹر الطاف حسین کے تبادلہ کے معاملہ پر شہری حلقے بدستور سراپا احتجاج۔ واپس تعیناتی کا مطالبہ۔ صدر انجمن شہریاں محمود احمد خان لودھی اور دیگر نے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف اور دیگر ارباب اختیار واقتدار سے مطالبہ کیا ہے ڈاکٹر الطاف حسین کو واپس وزیرآباد میں تعینات کیا جائے جو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر گزشتہ چند سالوں سے ہسپتال کے معاملہ کو دستیاب وسائل سے بڑھ کر عوامی تعاون سے بہتر انداز میں چلارہے تھے ان کے تبادلہ کے بعد سے ہسپتال میں مریضوں بالخصوص غریب مریضوں کو علاج معالجہ میں سخت دشواری کا سامنا ہے۔ شہری حلقے گزشتہ کئی روز سے ڈاکٹر الطاف حسین کے تبادلہ کے معاملہ پر احتجاج پہ ہیں اس سلسلہ میں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں لگائے گئے ہیں جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر الطاف حسین کا تبادلہ منسوخ کرکے انہیں واپس وزیرآباد میں تعینات کیا جائے۔