سکھ کمیونٹی کی وزیرآباد کے تاریخی گوروکوٹھہ کی واپسی اور نئے سرے سے تزئین و آرائش میں دلچسپی

GURDWARA

GURDWARA

وزیرآباد (تحصیل رپورٹر) سکھ کمیونٹی کی بین الاقوامی تنظیم “گورودوارہ کار سیوا کمیٹی “کی وزیرآباد کے تاریخی گوروکوٹھہ کی واپسی اور نئے سرے سے تزئین و آرائش میں دلچسپی۔ محکمہ اوقاف نے گوروکوٹھہ کی ملکیتی اراضی کے کرایا داروں کو خالی کرنے کے نوٹس۔ گورو کوٹھہ کی ملکیتی اراضی کا رقبہ 13ایکڑ ہے۔وزیرآباد کا گورہ کوٹھہ سکھوں کے چھٹے گرو “گرو رام داس”کے زیر استعمال رہا جہاں گرنتھ پاٹھ بھی ہو تا تھا۔ تفصیلات کے مطابق وزیرآباد کا معروف گورہ کوٹھا تقسیم ہند کے بعد غیر آباد ہو گیا۔ گورو کوٹھا کی ملکیتی اراضی کا رقبہ کم و بیش 13ایکڑ ہے جس میں موجودہ مولانا ظفر علی خان ڈگری کالج۔ گورنمنٹ ایم سی بوائز ہائی سکول اور ملحقہ پلے گرائونڈز وغیرہ شامل ہیں۔ گورو کوٹھا کی عمارت کا رقبہ 2 کنال ہے۔

ارد گرد کی بقیہ زمین قابضین کے نا جائز تصرف میں ہے۔تقسیم ہند کے بعد گورو کوٹھا اور اس کی اراضی محکمہ اوقاف کی نگرانی میں ہے۔1960میں گلاب دین نامی شخص کو 15مرلہ قطعہ اراضی کرایا پر دیا گیا۔ بعد ازاں روشن دین کو 6مرلہ اور عبد الرشید کو 5مرلہ اراضی کرایا پر دی گئی تھی۔ مذکورہ گورہ کوٹھا سکھوں کے چھٹے گرو”گرو رام داس”کے زیر استعمال رہی جہاں سے وہ براستہ وزیرآباد کشمیر جاتے تھے۔گورو رام داس کے ایک پیر و کاربھائی کھیم چند نے اس کو گورو دوارہ کی شکل دے دی۔ یہاں بسنت پنچمی اور بیساکھی کے تہوار بڑی شان سے منائے جاتے تھے۔

تقسیم کے بعد گور دوارہ بے آباد ہو گیا اور اسکی ملکیتی اراضی پربھی لوگوں نے ناجائز قبضہ کر لیا تا ہم گورو کوٹھہ کی عمارت ابھی بھی قائم ہے۔گذشتہ مہینوں میں سکھوں کی بین الاقوامی تنظیم “گردوارہ کار سیوا کمیٹی” کے ممبران نے وزیرآباد کا دورہ کیا اور گورو کوٹھا کی تاریخی حیثیت کو دوبارہ بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور محکمہ اوقاف سے گورو کوٹھا کی واپسی کے لئے کہا۔محکمہ اوقاف نے اپنے کرایا داروں کو اراضی خالی کرنے کے نوٹس دے دیئے ہیں۔گورو کوٹھہ کی اراضی پر درجنوں افراد نے نا جائز قبضہ کر رکھا ہے جن سے اراضی واپس لینا ہے لیکن محکمہ اوقاف کی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔بین الاقوامی کار سیوا کمیٹی قبل ازیں لاہور کے گورودوارہ چونا منڈی اور گورو دوارہ شہید گنج کو بھی سابقہ حیثیت میں بحال کر چکی ہے۔