پاکستان کے سب سے حساس علاقے وزیر ستان کو پاکستانی عوام سمیت دنیا بھر کے تمام ذرائع ابلاغ کے لئے بھی کھول دیا ہے۔شمالی وزیرستان خیبر پختونخوا کا ضلع اور بنوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کا صدرمقام میران شاہ ہے۔وزیر اور داوڑ قبائل یہاں کے بڑے قبائل شمار ہوتے ہیں۔ جب کہ جنوبی وزیرستان کا صدرمقام وانا ہے ۔محسود قبیلہ یہاں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ اس کے علاوہ وزیر قبیلہ بھی اہم ہے۔ وزیرستان کا علاقہ 1500مربع کلومٹر پر محیط ہے۔ وزیرستان کے شمال میں دریائے ٹوچی اور جنوب میں دریائے گومل تک پھیلا ہوا ہے جبکہ مشرق میں ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان اور ایف آر ٹانک جبکہ شمال مغرب میں افغانستان کے صوبے خوست اور پکتیکا واقع ہیں۔ 1893 تک وزیرستان انگریز حکومت سے الگ ایک آزاد قبائلی علاقے کے طورپر شمار ہوتا تھا۔1947میں جب پاکستان وجود میں آیا تو وزیرستان بھی اس میں ضم ہوا۔
پڑوسی ملک افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کے بعد خطے میں جنگ چھیڑ گئی اور عالمی قوتوں نے افغانستان میں بالادستی کی جنگ شروع کردی۔ پاکستان نے سوویت یونین کو اپنی مملکت سے دور رکھنے کے لئے امریکا کا ساتھ دیا اور پھر افغان طالبان وجود میں آئے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرحدوں کی حفاظت کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ قبائل پاکستان اور افغانستان میں مل جل کر رہتے آئے ہیں ۔ تاہم جب سوویت یونین کو شکست کا سامنا ہوا اور افغانستان سے انخلا ہوا تو افغانستان میں اقتدار کے لئے جنگجو گروپوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ مختلف گروپ بن گئے ۔ جس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوا۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بعض جنگجو گروپ واپس پاکستان آگئے اور انہوں نے وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں اپنے بیس کیمپ بنا لئے۔ اس دوران نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور امریکا ، افغانستان پر حملہ آور ہوگیا ۔
پاکستان نے نیٹو افواج کو سہولت فراہم کی ۔سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے2016 کے آخر میںافغانستان سے انخلا کا اعلان کردیا لیکن صدر ٹرمپ وعدے پر مکمل عمل درآمد نہ کرسکا۔ عبوری حکومت کو افغان طالبان نے تسلیم نہیں کیا اور 17برس سے افغانستان امریکی جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے ۔
پاکستان میں عسکریت پسندوں نے افغان طالبان کے منشور سے ہٹ کر پاکستان میں شدت پسندی کی کاروائیاں شروع کردیں اور دنیا کو یہ تاثر دیئے جانے لگا کہ پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان ، افغانستان کی باقاعدہ شاخ ہے ۔ لیکن افغان طالبان نے کالعدم تحریک کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات اور عام عوام و مقامات کو نشانہ بنانے اور پاکستانی فورسز کے خلاف کاروائیوں پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو علیحدہ تنظیم قرار دیا اور بازار ، مدارس ، عوامی مقامات پر حملوں اور خودکش دھماکوں کی مذمت کی کہ امارات اسلامیہ اسے عوامل کی حمایت نہیںکرتی ہے۔ پاکستانی حکومت نے پاکستان عسکریت پسندوںسے مذاکرات کرنے کی کئی بار کوشش کی لیکن وزیر ستان میں شدت پسندوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں تھی ، جس کے سبب پاکستان کا کوئی علاقہ شدت پسندوں کی زد سے محفوظ نہ رہا تھا ۔
پاکستانی سیکورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا میں کئی آپریشن کئے اور شدت پسندوں کو پسپا کیا لیکن شدت پسند جنوبی و شمالی وزیر ستان میں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے جس کے بعد ضروری ہوگیا تھا کہ ایک بڑا اور جامع آپریشن کیا جائے۔ جس کے بعد لاکھوں قبائلی عوام نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیا ، اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے اور پھر مختصر عرصے میں سیکورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کرکے وزیرستان کو عسکریت پسندوں کے چنگل سے آزاد کراکر کر ملاکنڈ ڈویژن کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں ریاست کی رٹ قائم کردی جس میں جنوبی و شمالی وزیر ستان بھی شامل ہیں۔
عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کے بعد اب عام عوام بغیر سیکورٹی لئے جنوبی و شمالی وزیر ستان کے کسی بھی حصے میں جا سکتے ہیں ۔ وزیر ستان میں محسود اور وزیر قبائل سمیت دوتائی قبیلے کے افراد بھی آباد ہیں۔67برس بعد اقلیتی برادری کو ڈومی سائل کا حق ملا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں وزیر ستان کو جنوبی وزیر ستان اور شمالی وزیرستان کے نام سے جاناجاتا ہے۔ میران شاہ اور وانا کی پہچان ، شدت پسندی کے حوالے معروف رہی ، کالعدم تنظیموں کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعات کا ہونا معمول بن چکا تھا ۔ شدت پسندی و انتہا پسندی وزیر ستان کی پُرامن عوام کی پہچان کہلاتی تھی۔
امریکا کی جانب سے وزیر ستان کے علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی و پناہ گاہوں کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ پاکستان نے وزیر ستان میں امن قائم کرنے کا جو عزم کیا تھا اُسے پاکستان کے ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ خود مشاہدہ کررہے ہیں۔ عام افراد سے انٹرویو کررہے ہیں اور جہاں جانا چاہتے ہیں انہیں کوریج کے لئے نہیں روکا جاتا۔ حالیہ انتخابات میں سیاسی سرگرمیاں بھی بحال ہوئیں اور قومی اسمبلی میںوزیر ستان کے نمائندے پارلیمانی رکن منتخب ہوئے۔ وزیر ستان میں امن کے پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دیں ہیں ۔ خاص طور پر وزیرستان کی عام عوام نے سیکورٹی اداروں کا ساتھ دے کر قربانی کی تاریخ رقم کی ہے۔
یہ غیر معمولی کارنامہ ہے۔ سیکورٹی فورسز نے جہاں شدت پسندوں کو وطن عزیز سے پاک کیا تو دوسری جانب عالمی برداری کے لئے وزیر ستان کے دروازے کھول دیئے کہ جہاں پاکستان کا کوئی عام شہری جانے کا تصور نہیں کرسکتا تھا آج وہاں امن کا دور دورہ ہے۔پاکستانی الیکٹرونک میڈیا اور عالمی ذرایع ابلاغ وزیرستان کا وہ چہرہ دکھا رہے ہیں جو عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے بعد پُر امن وزیر ستان کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
گو کہ عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے آپریشنز سے وزیرستان کے انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے جیسے بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بڑی حد تک ازالے کے لئے ایک بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے جو پاکستان اپنے وسائل سے پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وزیر ستان میں جہاں انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور عام مکینوں کو خوف و دہشت کی فضا سے نکالنے کے لئے مربوط حکمت عملی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے ۔تاہم اب بھی نقصانات کا مکمل ازالہ ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔
یہاں پہلے امن کی ضرورت تھی ، عسکریت پسندوں کو شکست دینا کا مقصد تھا۔ جس میں سیکورٹی فورسز کو کامیابی ملی ۔ اس کے بعد لاکھوں آئی ڈی پیز کی باحفاظت واپسی اور بحالی سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا اور اس بڑے انسانی المیے کو بھی بڑی کامیابی اور برد باری سے مکمل کیا گیا ۔ اب یہاں تجارتی سرگرمیوں اور انفراسٹراکچر کی بحالی کی بات کی جاتی ، امن و امان کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے۔
وزیر ستان سے عسکریت پسندوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز اور عام افراد و عوامی مقامات کو نشانہ بنایا جاتا تھابیت اللہ محسود عسکریت پسند تنظیم کا سربراہ تھا ۔ میراں شاہ میں 2008میں مکین نامی علاقے میں ڈرون حملے میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن بیت اللہ محسود اس حملے میں محفوظ رہا ۔بیت اللہ محسود نے پاکستان میں خودکش حملوں میں اضافہ کیا ، یہاں تک بے نظیر بھٹو پر حملے میں سابق وزیر اعظم کی شہادت بھی بیت اللہ محسود کی سازش کا ماسٹر مائند قرار دیا گیا ۔ حکومت نے وزیر ستان میں امن کے قیام کے لئے کوششوں کرنا شروع کردی تھی کیونکہ2003سے پاکستان میں ہر دہشت گردی کے واقعات کے جڑیں وزیرستان سے ملتی تھی ۔جون2008میں بیت اللہ محسود نے جنڈالہ کے مقام سے40افراد کو اغوا کرلیا او ر ان میں سے28افراد کو ہلاک کردیا۔
جولائی2008میں القاعدہ کے رہنمامرہت مرصیالسیّد کو ڈرون حملے میں ہلاک ہوا ۔ امریکا نے اس کے سر کی قیمت پانچ لاکھ ڈالر رکھی ہوئی تھی ۔نومبر 2008تک امریکا وزیرستان میں 76ڈرون حملے کرچکا تھا ۔واضح رہے کہ2004سے2017تک 429ڈرون حملے کئے گئے ۔ بش انتظامیہ کے دور میں51،اوبامہ انتظامیہ کے دور میں373 اور ٹرمپ انتظامیہ دور میں پانچ ڈروں حملے کئے گئے۔ 2010میں سب سے زیادہ122ڈرون حملے کئے گئے۔ ڈرون حملوں سے بے گناہ قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا اور دوسری جانب امریکا حقانی نیٹ ورک سمیت مختلف مطلوب شخصیات کو ڈرون حملے میں کامیابی کے دعوے کرتا ، کیونکہ وزیر ستان کے حوالے سے عام تاثر بن چکا تھا کہ القاعدہ سمیت شدت پسندوں کے کئی دھڑے موجود ہیں۔ شمالی وزیر ستان میں امریکی ڈرون حملوں میں تیزی آتی چلی گئی جس کے خلاف قبائلی عوام نے 2011میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ۔
ڈرون حملوں سے نشانہ بننے والوں میں بڑی تعداد بے گناہ افراد و خواتین و بچوں کی تھی ۔ ڈروں حملوں کی وجہ سے کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوجاتے اور دہشت گردی کی کاروائی میں اضافہ ہوجاتا ۔حکومت جب کسی ایک گروپ سے مذاکرات کرتی تو دوسرا گروپ ماننے سے انکار کردیتا ۔فروری 2009میں اُس وقت کی سرحد حکومت اور تحریک نفاذ شریعت و کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔ لیکن وہ پائیدار نہ رہ سکا اور پاکستان مسلسل دہشت گردی کا شکار رہنے لگا ۔اپریل2009میں سوات میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا ۔ لاکھوں افراد اپنوں گھروں سے بے گھر ہوئے تاہم سیکورٹی فورسز نے ریکارڈ وقت میں وادی سوات ملاکنڈ ڈویژن میں ریاست کی رٹ قائم کرکے آئی ڈی پیز کو بھی بحال کردیا ۔2009میں صوبہ پنجاب بھی عسکریت پسندوں کی آجامگاہ بنا ۔
کئی کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کا تعلق پنجاب سے رہا ہے۔ 2009میں عسکریت پسندوں نے مناواں لاہور پولیس اکیڈمی اور اسلام آباد میں ایف سی پر حملہ کیا جس میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ان حملوں کی ذمے داری بیت اللہ محسود نے قبول کی ۔ جس کے سر کی قیمت امریکا 50لاکھ ڈالر مقرر کرچکا تھا ۔جون 2009ء میں پاک فوج کی جانب سے وزیرستان میں کمانڈر بیت اللہ محسود کے گروپ کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی کو ”آپریشن راہ نجات ”کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کا باقاعدہ آغازپاک فوج کے جنرل ہیڈکواٹرز پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد ہوا ۔ اگست 2009میں بیت اللہ محسود ، اس کی اہلیہ اور بھائی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے ۔
اکتوبر2009میںپاکستانی سیکورٹی فورسز نے زمینی کاروائی کا آغاز کیا تو جنوبی وزیرستان سے ہزاروں خاندانوںنے نقل مکانی کی۔ سیکورٹی فورسز نے جنوبی وزیر ستان میں شدت پسند کے خلاف کاروائی شروع کرکے کامیابی کے اہداف حاصل کئے۔عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جنگ سے قبائلی علاقوں کا انفرا اسٹرکچر بُری طرح تباہ ہوگیا ۔ ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور اربوں ڈالرز کا مالی نقصان ہوا ۔ آئی ڈی پیز کو تکالیف کا سامنا ہوا اور اپنوں گھر سے بے گھر ہونے والوں شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ اُدھرشمالی بیت اللہ محسود کے بعد حکیم اللہ محسود نے شمالی وزیر ستان سے کالعدم تحریک نے نہتے اور عوامی مقامات سمیت سیکورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی لائی ۔ شمالی وزیر ستان عسکریت پسندوں کا خطرناک ترین گڑھ بن چکا تھا ۔
پاکستانی عوام کو مدارس ، مساجد ، جلوسوں ، بازاروں ، مزاروں اور عوامی مقامات میں خود کش حملوں میں نشانہ بنانے کا بھیانک سلسلہ بڑھتا جارہا تھا ۔اور قیمتی جانوں کا نقصان بے پناہ ہونے لگا ۔حکیم اللہ محسود نے پاکستان میں دہشت پھیلا دی تھی ۔ شمالی وزیر ستان کا علاقہ کالعدم تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا تھا ۔ شمالی وزیر ستان کے گنجلک و دشوار گذار علاقے میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن کا فیصلہ مشکل ترین تھا ۔ وہ بھی اُس صورتحال میں کہ پاکستان کو اپنے وسائل کے تحت ہی آپریشن کرنا تھا کوئی بیرونی امداد و کمک نہیں ملنا تھی۔2011میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن میں ہلاکت کے بعد پاکستان کے حالات مزید خراب ہوچکے تھے۔قبائلی علاقوں میں سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوچکا تھا ۔
2013میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ عسکریت پسند تنظیم کا سربراہ بن گیا۔ جو سوات میں آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ حق میں شکست کے بعد فرار ہوکر افغانستان روپوش ہوچکا تھا۔افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی واقعات میں شدت آتی چلی گئی۔ 2014میں حکومت اور کالعدم جماعت کے درمیان خفیہ مقام پر مذاکرات بھی ہوئے لیکن مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔مئی2014میںآپریشن ضرب عضب کے نام سے شمالی وزیر ستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی کاروائیوں کا آغاز کردیا گیا ۔کراچی ائیر پورٹ حملہ، اے پی ایس پشاور سانحات کے بعد شمالی وزیر ستان میں آپریشن کا مطالبہ زور پکڑ چکا تھا ۔آپریشن ضرب عضب کا جامع آپریشن شروع کردیا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد جنوبی و شمالی وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں میں آپریشن راہ حق 1۔2۔3، آپریشن راجگال کے بعد متاثرین کی بحالی و انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا سلسلہ شر وع ہوا۔ حکام کے مطابق 95فیصد آئی ڈی پیز اپنے گھروں میں واپس آچکے ہیں۔ آپریشن رد الفساد میں اُن شدت پسندوں اور سہولت کاروں کے خلاف ملک گیر پیمانے پر کاروائیوں کا آغاز کردیا گیا اس کے ساتھ ہی بارڈر پر خار دار باڑ اور سرحدوں میں دہشت گردوں کی آزادنہ نقل و حرکت کو ختم کرنے کے لئے 2600کلو میٹر طویل باڑ لگانے کا آغاز کردیا گیا جو اس برس کے اختتام تک مکمل ہوجائے گا۔پاک ۔ افغان سرحد پر 900کلومیٹر خاردار باڑ لگائی جاچکی ہے ۔ جبکہ حکام کے مطابق جنوبی وزیر ستان میںسرحد پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے اور 109 کلومیٹر کے علاقے میں 22 قلعے بنائے گئے ہیں وہاں جدید مانیٹرنگ سسٹم لگایا جا رہا ہے۔80 تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں اور ہیلتھ کے لیے 59 یونٹس اور 300 سے زیادہ سولر پلانٹس لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کے لیے 41 سپورٹس گراؤنڈز بھی بنائے گئے ہیں۔
شمالی وزیر ستان میں ترقیاتی کام کئے گئے۔حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیر ستان میں 70 فیصد سروے مکمل ہو چکا ہے اور 25 ہزار گھرانوں کو رقم کی فراہمی ہو چکی ہے جبکہ اندازہ ہے کہ 15 سے 20 ہزار گھر ابھی رہتے ہیں۔ مکین مارکیٹ میں 728 دکانوں پر مشتمل اس وسیع مارکیٹ کو جو پہلے رہائشی علاقہ تھا سات سال کی لیز پر دکانداروں کو دیا گیا ہے جس کا انتظام فوج کے پاس نہیں بلکہ اسے ایک مقامی کمیٹی چلاتی ہے اور سہولیات کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہے۔فوج کی جانب سے وانا میں 350 ایکٹر رقبے پر قائم ایگری کلچر پارک بنانے کے بعد انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہاں 168 دکانیں اور 75 گوداموں کے علاوہ کولڈ سٹوریج اور یہاں پیدا ہونے والے چلغوزے کی صفائی کے لیے ایک بڑا پلانٹ لگایا گیا ہے۔وزیر ستان کے رہائشیوں کو امدادی رقوم سست اور نقصانات کے ازالے کے وعدے پورے نہ ہونے کی بھی شکایت ہے تاہم حکام کے مطابق انہیں جس طرح حکومت سے فنڈ ملتے رہیں گے جلد ازجلد ان کے نقصانات کا ازالہ کردیا جائے گا۔ ایگری کلچر پارک میں دکانوں و گودام کی الاٹمنٹ کے سلسلے میں سول انتظامیہ کے خلاف گذشتہ دنوں مظاہرہ بھی کیا گیا اور سول انتظامیہ کی جانب سے الاٹمنٹ میں بے ضابطگی کی شکایت و تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔
اس وقت سرحدوں پر بارودی سرنگوں کا مسئلہ موجود ہے تاہم حکام نے عوامی آگاہی کے لئے جگہ جگہ بورڈ لگائے ہوئے ہیں جس میں انہیں مائن کی موجودگی کے ایریے کا بتایا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ نے پہلی مرتبہ شمالی وزیرستان کا دورہ کیا ۔ یہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ کا پہلا دورہ تھا ۔اس سے قبل پاکستانی میڈیا نے بھی شمالی وزیر ستان نہیں دیکھا تھا ۔ مجموعی طور پر وزیر ستان میںعوام کا اعتماد بھی بحال کیا جارہا ہے ۔ برسوں برس دہشت گردوں کی موجودگی اور برے آپریشنز کے بعد علاقوں میں جلد بحالی میں وقت درکار ہوگا ۔ قبائلی علاقوں کا اب صوبہ خیبر پختونخوا سے انضمام تو کردیا گیا ہے تاہم ایف سی آر جیسے کالے قانون سے آزادی کے بعد بتدریج نئے اضلاع میں ریاست کی جانب سے سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپریشن سے متاثرہ عوام جلد ازجلد ازالہ چاہتے ہیں ۔
ریاست کو اس بات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کہ قبائلی اضلاع کے عوام کے تحفظات و نقصانات کا جلد از جلد ازالہ کرنے کی کوشش کرے ۔ شمالی مغربی سرحدی علاقوں پر رہنے والے پاکستانیوں نے اپنی مملکت کے لئے بڑی قربانیاں دیں ہیں ، انہیں پاکستان کے دیگر اضلاع کی طرح ریاست کے دائرے میں وہ تمام قانونی حقوق جلد از جلد دیئے جائیں جو سب پاکستانیوں کا بنیادی حق ہے۔وفاق ، صوبہ خیبر پختونخوا میںسابق فاٹا علاقوں کی حلقہ بندی میں عوام و سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرے ۔ صوبائی و قومی حلقے کے حدود میں سیاسی جماعتوں کے تحفظات سامنے آئے ہیں ، لہذا الیکشن کمیشن پاکستان حلقہ بندیوں میں عوامی نمائندگی کے حقوق کا خیال رکھے ۔ خیبر پختونخوا ، سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اسی برس ملک بھر میں ہونے والے ممکنہ بلدیاتی انتخابات کے ساتھ ممکن بنائے ۔ نئے اضلاع کو این اف سی ایوارڈ کے علاوہ خصوصی فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ پورا کرے۔
ایف سی آر کے خاتمے کے بعد عدالتی نظام کی بحالی اور دیگر قانونی انتظامات کی فراہمی کے لئے سنجیدگی کے ساتھ مسائل کو حل کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ وزیر ستان سیاحتی حوالے سے بھی بڑا خوبصورت علاقہ ہے نیز چلغوزے کے علاوہ معدنی و قدرتی وسائل سے مالا مال علاقے پر خصوصی توجہ سے مقامی آبادی کے نقصانات کا ازالہ جلد ممکن ہوجائے گا ۔ انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی لئے اٹھانے جانے والے اقدامات کی درست سمت سے عوام کا اعتماد ریاست پر بڑھے گا ۔ اور ریاست کے خلاف ملک دشمن عناصر کے منصوبے ناکامی کا شکار ہونگے ۔ وزیر ستان کی عوام کو یقیناََ یاد ہوگا کہ شمالی وزیرستان کے فوجی آپریشن سے ایک ہفتے قبل سینکڑوں شدت پسند اپنے بال اور داڑھیاں منڈوا کر فرار ہو گئے تھے۔انہیں اپنے تلخ تجربات کی بنا پر ایسے عناصر کو دوبارہ پیر جمانے کا موقع نہیں دینا چاہیے جس کی وجہ سے انہیں اور ان کے خاندان کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ 70فیصد بچوں کو تعلیم سے محروم ہونا پڑا۔لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔اب انہیں دوبارہ اپنی نظریاتی و ملکی سرحدوں کا دفاع کرکے مایوس ملک دشمن عناصر کے سازشی منصوبوں و منفی پروپیگنڈوں کو ناکام بنانا ہو گا۔