ڈاکٹر طاہر القادری کی علمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے جبکہ ان کی سحر انگیز شخصیت اور انداز خطابت نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو انکا دیوانہ و مرید بنا رکھا ہے اور ادارہ منہاج القرآن کے بانی و سرپرست کی حیثیت سے لاہور میں قائم ہونے والے اس ادارے کو مختصر سے وقت میں دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں کام کرنے والے فلاحی و تعلیمی ادارے میں تبدیل کرکے انہوں نے مستقل مزاجی ‘ شبانہ روز محنت اور بہترین منتظم و منصوبہ ساز ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ان حالات میں جب بنیاد پرستوں کی جانب سے اسلام کے تشخص کو مسخ کر دیئے جانے کے بعد دنیا اسلام کے نام سے خوفزدہ ہے۔
مسلمانوں سے نفرت کی جارہی ہے طاہرالقادری کے ادارے منہاج القرآن کی دنیا بھر میں موجود برانچوں پر ان ممالک کی حکومتوں و عوام کا اعتماد اور ان اداروں کو ملنے والے فنڈز طاہرالقادری کی روشن خیالی اور مطابقت وقت پابندیوں کا مظہر ہے جبکہ لاہور سے شروع ہوکر پاکستان کے تمام شہروں سمیت دنیا بھر میں برانچ اور کیمپس قائم کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ادارے منہاج القرآن میں دی جانے والی تعلیم و تربیت کے معیار کا اندازہ اس ادارے سے فارغ التحصیل اور درس و تدریس میں مصروف طلباء و طالبات کے اخلاق و کردار اور انداز و بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ منہاج القرآن نے پاکستان میں بحیثیت ادارہ شرح تعلیم کو بلند کرنے اور جدید تعلیم کے ساتھ بہترین مذہبی و دنیاوی تربیت کی فراہمی میں دیگر تمام اداروں پر سبقت حاصل کر کے پاکستان کے تعلیمی نظام کیلئے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔
جبکہ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں طاہرالقادری کے اسلام آباد ڈی چوک کی جانب مارچ اور دھرنے میں موجود افراد کی تعداد ‘ ان کا اعتقاد و اعتماد اور نظم و ضبط ثابت کر چکا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری تحریک منہاج القرآن جیسے ایک ایسی منظم جماعت کے سربراہ ہیں جس سے وابستہ لاکھوں مریدین ان کے ایک اشارے پر اپنا سر کٹانے کیلئے بھی تیار ہیں مگر اس کے باجود انہوں نے ڈی چوک دھرنے اور پیپلز پارٹی حکومت کیخلاف کئے گئے لانگ مارچ کو ہر قسم کی شر انگیزی و شر پسندی سے محفوظ رکھا۔
مصلحت پسندانہ رویہ اپناتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کے بعد پسپائی اختیار کی مگر اس پسپائی کے باجود وہ حکمرانوں کو اپنی عوامی طاقت کے حوالے سے باور کرانے میں اس قدر کامیاب ہوگئے اب جب انہوں نے وزیراعظم میاں نوازشریف کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ کی حکومت کیخلاف احتجاج اور انقلاب کی صدا لگائی تو حکومت کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی اور حکومتی مصاحبین نے طاہرالقادری کی گرفتاری ‘ نظر بندی اور حفاظتی تحویل میں لئے جانے تک کے مشورے دے ڈالے جبکہ شاہ کے کچھ وفاداروں نے طاہرا لقادری کو خوفزدہ کر کے انہیں پاکستان آمد سے روکنے کیلئے لاہور ‘ ماڈل ٹاؤن میں ادارہ منہاج القرآن کے سامنے موجود حفاظتی بیریئرز ہٹانے کے نام پر ایک ایسا خونیں ڈرامہ بھی کھیلا جس میں 2 خواتین سمیت اب تک 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جبکہ 80افراد زخموں کی تکلیف سے کرا رہے ہیں اور ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے کئی کارکنان کی گمشدگی کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں جس کے بعد حکومت کیخلاف ایک شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اورلاہور واقعہ کی تمام تر ذمہ داری پنجاب حکومت کے ساتھ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے سرمنڈھ گئی اور انہیں اپنی گردن بچانے کیلئے وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور اپنے پرسنپل سیکریٹری کو اپنے عہدوں سے برطرف کرناپڑا مگر ابھی تک وزیر اعلیٰ کے استعفے کے مطالبات کی گونج ختم نہیں ہوئی ہے ان حالات میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد اور اسلام آباد ایئرپورٹ سے مارچ کی صورت لاہور میں واقع اپنے گھرروانگی کے منصوبے نے حکومت کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں رکاوٹوں ‘ سخت اسنیپ چیکنگ اور ہزاروں سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باعث غیراعلانیہ کرفیو و ایمرجنسی جیسا ماحول پیدا کرنے پر مجبور کر دیا اور جب اس سے بھی حکمرانوں کی تسلی و تشفی نہیں ہوئی۔
Tahir-ul-Qadri
طاہرالقادری کے انقلاب کے خوف نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا تو انہوں نے طالبان سے طاہر القادری کی جان کو خطرات و خدشات کو بنیاد بناکر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے والی امارات ایئرلائن کی پرواز کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی اوراس کا رخ لاہور ایئرپورٹ کی جانب موڑ کر طیارے سوار ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے رفقاء کے علاوہ دیگر عام مسافروں کے انسانی حقوق کی پامالی کے ساتھ ان کیلئے شدید ذہنی اذیت ‘ تکلیف اور پریشانی کے اسباب بھی پیدا کردیئے اور لاہور ایئرپورٹ پر طیارے کی لینڈنگ کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے طیارے سے باہر نہ آنے کی ضد نے طیارے میں سوار دیگر مسافروں کواس وقت تک شدید کرب و اذیت میں مبتلا رکھا جب تک یہ معاملہ خود ڈاکٹر طاہرالقادری کی اپنی دانشمندی اور اعصاب کی کمزوری کے باعث اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔
طیارے سے باہر نکلنے سے انکار کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ وہ طیارے میں اسلام آباد ایئرپورٹ کیلئے سوار ہوئے تھے لہٰذا تمام مسافروں کے ساتھ انہیں بھی اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچایا جائے جس کی وجہ سے امارات ایئرلائن کے طیارے کے چار گھنٹے لاہور ایئرپورٹ پر موجودگی کے باعث اس کا فلائٹ آپریشن متاثر ہوا بلکہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد اس واقعہ کے وجہ سے پاکستان کی عالمی سطح پر جو بدنامی ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی طرح پاکستان میں انٹرنیشنل فلائٹس بھی بند ہوجائیں گی جبکہ اس دوران حکومت کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف ‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ‘ وزیرداخلہ چوہدری نثار سمیت حکمران طبقے میں سے کسی کی جانب سے اس المیہ پر دینے کی ضرورت محسوس نہ کرکے پوری قوم کو 6گھنٹوں کے ہیجان میں مبتلا رکھا گیا جس کے باعث افواہ ساز فیکٹری کا کام زوروں پر رہا اور اس نے اسٹاک مارکیٹ کو مندی کا شکار کرنے کے ساتھ کاروباروتجارت کے حجم کو بھی متاثر کیا جبکہ وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کی جانب سے طاہرالقادری پر طیارہ ہائی جیکنگ اور مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے الزامات حکومتی غیر سنجیدگی کا اظہار کرتے رہے۔
جبکہ طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ حکومت نے لاہور میں دہشتگردوں کو یونیفارم پہناکر اسلحہ کیساتھ میرے قتل کا سامان کیا ہے اسلئے میں فوج کی حفاظت کے بغیر طیارے سے باہر نہیں آؤں گا مگر حکومت نے اس سلسلے میں بھی کسی راست اقدام سے گریز کیا جس کے بعد طاہرالقادری تیسرا آپشن یعنی ذاتی سیکورٹی کے حصار اور گورنر پنجاب کی موجودگی میں طیارے سے نکلنے کی شرط کی تکمیل پر ایئرپورٹ سے گھر روانہ ہوگئے ‘ یوں حکومت نے اس محاذ پر فتح تو حاصل کرلی مگر ثابت کردیا کہ قومی امور اور عوامی مفادات سے زیادہ اسے اپنی انا پرستی ‘ مطلق العنانی اورریاستی قوت کی فکر ہے جو یقینا میاں برادرا ن اور ان کی جماعت مسلم لیگ کے ساتھ جمہوریت اور حکومت کے مستقبل کیلئے بھی خطرناک ہے دوسری جانب اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی سحر انگیز شخصیت اورادارہ منہاج القرآن کی افرادی قوت کے باعث حقیقی معنوں میں ایسا سیاسی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جو متحدہ کے قائد الطاف حسین کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے کہ وہ جب چاہیں اپنے چاہنے والوں کو مارچ اور احتجاج کیلئے گھروں سے باہر نکال کر ایک منظم تحریک کے ذریعے حکومت کی راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون چھین سکتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے جس کا اظہار پیپلز پارٹی دور حکومت میں لانگ مارچ و ڈی چوک دھرنے کے موقع پر بھی ہوچکا ہے اور اب طیارے سے باہر نہ نکلنے یا فوج کی نگرانی میں باہر آنے کے مطالبے سے دستبرداری سے بھی ثابت ہوا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں جہاں متانت ‘ ذہانت ‘ فطانت ‘ تدبر ‘ بصیرت اور معاملہ فہمی انسان کی لونڈی ہوتی ہے مگر اعصاب کی کمزوری اس کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتی ہے اور انشمندی و معاملہ فہمی یا حب اولوطنی و عوام دوستی کے نام پر بے اعتباری و جلد بازی کا اظہار انسان کی کسی بھی گیم کو کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچنے دیتا اور اگر ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب علم و حکمت اور تدبر و فراست کے ساتھ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے تو یقینا ڈی چوک میں مردو خواتین اور بچوں پر مشتمل منظم و پر امن دھرنے کے ذریعے ان کے کارکنان نے جس سیاسی بالیدگی کا ثبوت دیا تھا اسے ڈاکٹر صاحب کے مضبوط اعصاب کی حمایت حاصل ہوجاتی اور آخری لمحات پر کامیابی کی منزل سے چند قدم کے فاصلے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی واپسی نہ ہوتی تو شاید آج پاکستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی مگر اس موقع پر بھی اعصاب نے ڈاکٹر صاحب کا ساتھ نہیں دیا۔
انہوں نے اپنی یقینی کامیابی کو جلدبازی کی بھینٹ چڑھادیا جبکہ اس بار بھی اگر ڈاکٹر صاحب چند گھنٹے اور اپنے اعصاب کو چٹخنے سے بچالیتے تو غیر سنجیدگی کا اظہار کرنے والے خوفزدہ حکمرانوں کیخلاف ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی حمایت میں اتنا اضافہ ضرور ہوجاتا کہ فوج اس جانب توجہ دینے اور مفاد پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کے مطالبے کے مطابق کور کمانڈر کو ڈاکٹر صاحب سے رابطے کی ہدایت پر مجبور ہوجاتی جس کے بعد وہ بڑی عزت کے ساتھ فوجی کانوائے کی حفاظت میں فتح کا تاج سرپر سجائے اپنے گھر روانہ ہوتے اور ان کے کارکنان و مریدین کے حوصلے اس انقلابی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے مستحکم ہوجاتے مگر ڈاکٹر صاحب میاں نواز شریف جیسے زیرک سیاستدان اور ان کے تجربہ کار مصاحبین کی چال میں آ گئے۔
Nawaz Sharif
طیارہ ہائی جیکنگ کیس کے الزامات ان کے اعصاب پر اس قدر سوار ہوگئے کہ انہوں نے تیسرے آپشن یعنی ذاتی سیکورٹی اور گورنر پنجاب کی ہمراہی میں طیارے سے باہر آنے اور گھر جانے میں ہی عافیت جان کر اپنے کارکنان کے انقلابی حوصلے کو اتنا تھکا دیا ہے کہ اب کم از کم دو سال تک یہ حوصلہ بیدار نہیں ہوسکے گا اور موجودہ حکومت کو ڈاکٹر صاحب کے انقلاب اور احتجاج دونوں ہی سے دوسال تک تحفظ کا اعتماد مل گیا ہے جو یقینا حکمرانوں کیلئے تو بہتر ہے مگر کیا عوام کیلئے بہتر ثابت ہوگا اس کا اظہار تو حکمرانوں کی عوامی پالیسیوں ‘ گورننس اور ملکی تعمیر و ترقی کی ترجیحات سے ہی ملے گا دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا انقلاب سے محفوظ مستقبل زیادہ انقلابی ہوگا یا مستقبل کیلئے انقلاب ناگزیر ہو گا؟