تحریر : شیخ توصیف حسین آج کے اس پر آشوب معاشرے میں نفسا نفسی کے شکار لاتعداد انسان دولت کو مشکل کشا سمجھتے ہیں در حقیقت تو یہ ہے کہ یہی دولت انسان کی بر بادی کی وجہ ہے آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس دولت کو طوائف اپنے قدموں میں اُٹھا نا اپنی توہین سمجھتی ہے اسی دولت کو ہمارے ملک کے بڑے بڑے شر فا سیاست دان تاجرز علمائے دین بیوروکریٹس وغیرہ قانون شکن عناصر کی جانب سے پھینکے جانے کے باعث زمین سے اٹھا کر چومتے ہوئے آ نکھوں سے لگا لیتے ہیں دولت نے انسان کو اس قدر بے غیرت بنا دیا ہے کہ بعض انسان اس دولت کے حصول کی خا طر اپنی مائوں بہنوں بہو اور بیٹیوں کو فحاشی کے اڈوں کی زینت بنا دیا ہے۔
اسی دولت کے حصول کی خا طر بعض افراد منشیات فروشی جیسا گھنائو نا دھندہ کر کے کئی گھروں کے چراغ گل کر چکے ہیں جن کی جدائی کو بر داشت نہ کرتے ہوئے ان کے بوڑھے والدین خون کے آ نسو روتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں اسی دولت کے حصول کی کا طر بعض بے حس نو جوان اپنے بوڑھے والدین یہاں تک کہ اپنے بہن بھائیوں کا قتل عام کر دیتے ہیں اسی دولت کے حصول کی خا طر بعض علمائے دین مذہبی فسادات کروا کر بے گناہ انسانوں کا قتل عام کروانے میں مصروف عمل ہیں جبکہ متعدد انسانوں کو بند سلاسل اسی دولت کے حصول کی خا طر لا تعداد ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب اور بے بس مریضوں کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض لیڈی ڈاکٹرز اسی دولت کے حصول کی خا طر نا جائز معصوم بچوں کو زندہ یا مردہ نکال کر ویران سڑکوں پر پھینک دیتی ہیں خواہ انھیں آ وارہ کتے ہی کیوں نہ کھا لیں اسی دولت کے حصول کی خا طر لا تعداد انسان اشیائے خورد نوش میں ملاوٹ کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں لا تعداد انسان مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں جبکہ متعدد انسان اپنے پیاروں کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے خا لق حقیقی سے جا ملے ہیں۔
Lunch Kids
اسی دولت کے حصول کی خاطرسر کاری و غیر سر کاری سکولوں کے اساتذہ معصوم طلباء و طا لبات کو وردی ٹیو شن بکس فیس کے علاوہ مضر صحت اشیا فروخت کر کے لوٹنے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں استاد اور شاگرد کا احترام نہ ہونے کے برابر ہو کر رہ گیا ہے اسی دولت کے حصول کی خا طر محکمہ مال میں لا تعداد تحصیلدار پٹواری اور گرداور وغیرہ ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کی زد میں آ کر نجانے کتنے غریب افراد عدل و انصاف سے محروم ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اسی دولت کے نشہ میں دھت ہو کر لا تعداد بااثر افراد فرعون چنگیز خا ن ہلاکو خان اور نجانے کو ن کو نسے نیازی خان بن کر غریب افراد پر ظلم و ستم کی انتہا کر رہے ہیں۔
اسی دولت کے حصول کی خا طر لا تعداد سیاست دان اور علمائے دین غیر ملکیوں کے ایجنٹ بن کر ملک و قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رہے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ نصف صدی کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی ملک و قوم غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس حرام کی کمائی گئی دولت کے نشہ میں دھت ہو کر لا تعداد بااثر افراد یہ سو چتے ہیں کہ حرام کی کمائی گئی دولت کا کچھ حصہ اگر غریب اور بے بس افراد کے علاوہ حج وغیرہ پر خرچ کر دیا جائے تو اس سے انھیں خداوندکریم کی خو شنودگی حاصل ہو جائے گی تو یہ بس ایک دیوانے کا خواب ہے خداوند کریم حقوق اللہ میں کو تاہی برتنے والوں کو تو معاف کر سکتا ہے۔
لیکن حقوق العباد میں کو تاہی برتنے والوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتا اگر خداوند کریم اپنے فر شتے کو ایک حکم عدولی کے عوض ہمیشہ کی سزا دے سکتا ہے تو سو چو یہ ذرا کہ آئے روز انسا نیت کی تذلیل کرنے والوں کو کیسی خو فناک سزا مل سکتی ہے ویسے بھی انھیں یہ آ گاہ کرتا چلوں کہ کمیشن ما فیا کا نظام ہمارے معا شرے کے بااثر نا سوروں نے رائج کر رکھا ہے خداوندکریم کے حضور نہیں آج حرام کی کمائی گئی دولت کے پجاری ان ناسوروں نے ٹی ایم اے ہائی وے بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ میں ہر تعمیراتی کا موں کی مد میں تقریبا بیس پر سنٹ کمیشن وصولی کے سلسلہ کو جاری رکھ کر اسے قانونی شکل دینے میں مصروف عمل ہیں۔
Health Department
جبکہ محکمہ ہیلتھ کے بااثر ناسور ادویات کی خریداری جنرل سٹور کی خریداری فر نیچر و دیگر آ لات کی خریداری ہسپتا لوں کی تعمیر و مر مت یہاں تک کہ غریب افراد کو مالی ڈرائیور وارڈ سرونٹ کے علاوہ خا کروبوں کو نو کریاں دینے کے عوض لا کھوں کروڑوں روپے کمیشن کی مد میں ہڑپ کرنے میں مصروف عمل ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض بااثر ناسور تبادلوں کی مد میں بھی کمیشن کمانے میں مصروف عمل ہیں بس یہی حالت فروٹ منڈی سبز منڈی غلہ منڈیوں کی بھی ہے قصہ مختصر کہ اسی دولت کے حصول کی خا طر ہر بااثر انسان لا قانو نیت کا ننگا رقص کر کے انسانیت کو زندہ در گور کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں خداوند کریم کی خو شنودگی کو حاصل کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک بہت بڑا تا جر اشیا ئے خوردنوش کو خرید کر ذخیرہ کر لیتا تھا جسے وہ بعد ازاں منہ مانگے داموں فروخت کر کے خو ب دولت کماتا تھا لیکن بعد ازاں اس کمائی گئی دولت کا کچھ حصہ غریب اور بے بس افراد کے علاوہ حج وغیرہ پر خرچ کر دیتا تھا جس سے وہ محسوس کرتا تھا کہ اس سے اُسے خداوندکریم کی خو شنودگی حاصل ہو جائے گی۔
یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اسی دوران ایک فقیر اس تاجر کے پاس آ یا اور کہنے لگا کہ میری خواہش ہے کہ میں یکمشت ایک لا کھ روپے دیکھو تاجر نے اس فقیر کی اس بات کو سن کر منشی کو حکم دیا کہ فقیر کو یکمشت ایک لا کھ روپے تجو ری سے نکال کر دکھا ئو منشی ایک لا کھ روپے تجوری سے نکال کر تا جر کے پاس لے آ یا جس پر تا جر نے بڑے گھمنڈ اور طنز کے ساتھ فقیر کو کہا کہ اس ایک لا کھ روپے کو خو ب دیکھ کر اپنے ساتھ لے جائو تم بھی کیا یاد رکھو گے کہ کسی امیر تاجر سے پا لا پڑا تھا۔
فقیر نے تا جر کی اس بات کو سننے کے بعد بڑی حقارت سے وہاں پر پڑے ہوئے ایک لا کھ روپے کو دیکھا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے خالی ہاتھ چلا گیا کہ ان روپوں میں غریب اور بے بس افراد پر ہو نے والے مظا لموں اور لوٹ مار کی بد بو آ رہی ہے لہذا میں ان روپوں کو قبول کر نا گناہ کبیرہ سمجھتا ہوں سو چو اور سمجھو کہ جب خداوند کریم کا ایک چھوٹا سا پیرو کار حرام کی کمائی گئی دو لت کو پسند نہیں کرتا تو پھر خداو ند کریم کیسے پسند کرے گا کاش ہم سب ملکر جو یہ حرام کی کمائی گئی دولت کیلئے جستجو کر رہے ہیں اگر انسا نیت کی بہتری اور بھلائی کیلئے کریں تو اس سے نہ صرف ہماری دنیا بدل جائے گی بلکہ آ خرت بھی۔ یا اللہ میری توقیر کو سدا سلامت رکھنا میں تو فرش کے سارے خدائوں سے الجھ پڑا ہوں