واشنگٹن (جیوڈیسک) جوں جوں داعش کے پاس موجود جدید نوعیت کے ہتھیار کم ہو رہے ہیں، دولت اسلامیہ کے لڑاکے زیادہ خودساختہ اسلحہ تیار کر رہے ہیں۔
عراق کی لڑائی میں ملوث کمانڈروں نے بتایا کہ امریکی اتحاد، روس اور عراقی حکومت کے طیاروں کی علیحدہ علیحدہ کارروائیوں کی مدد سے اس دہشت گرد گروپ کے بھاری ہتھیار اور آلات ختم ہونے لگے ہیں، جو اُس نے حالیہ برسوں کے دوران اکٹھے کیے تھے۔
جمال سوارے، کُرد فورس کے کمانڈر ہیں جو موصل کے شمال میں واقع خضر کے آگے کے محاذ پر تعینات ہیں۔ وہ کہتے ہیں اِس کے باعث، داعش کے لڑاکے ’’عجیب قسم کے ہتھیاروں کی طرف لپک رہے ہیں‘‘۔
سوارے نے بتایا کہ ’’یہ ہتھیار گیس کے ڈبوں اور لوہے کے بھاری نلکوں میں دھماکہ خیز مواد بھر کر بنائے جاتے ہیں، کبھی کبھار یہ ’فرٹلائزر‘ سے بنے ہوتے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے کُرد افواج کی جانب سے برآمد کیے ہوئے اس خودساختہ اسلحے کی نمائش کے دوران کہی۔
جون 2014ء میں جب داعش کے دہشت گردوں نے عراق کے دوسرے بڑے شہر، موصل پر قبضہ کیا، عراقی حکومت کی افواج اپنا اسلحہ چھوڑ بھاگ نکلیں اور پسپائی اختیار کی، جس سے امریکی ساختہ ہتھیار داعش کے ہتھے چڑھے، جس میں ہتھاروں بندوقیں، گولیاں اور ’ہَموی‘ گاڑیوں جیسا دیگر اسلحہ شامل ہے۔
تاہم، گذشتہ 10 ماہ کے دوران، داعش نے عراق اور شام میں حکمتِ عملی کے قصبہ جات اور علاقے کا کافی خطہ کھویا، جب کہ کوئی قابل ذکر علاقہ حاصل نہیں کیا، جس سے شدت پسندوں کو مزید ہتھیار میسر آتے۔