تیرے اس شہر کے موسم سہانے چھوڑ جائیں گے نجانے کس گھڑی گزرے زمانے چھوڑ جائیں گے طلب ہوگی نہ پھر تجھ کو کسی حرف و حکایت کی تیرے ہونٹوں پہ ہم ایسے فسانے چھوڑ جائیں گے عَلم لے کر بغاوت کے کئی عشاق نکلیں گے فضا میں شہر کی سرکش ترانے چھوڑ جائیں گے بھلا پائے گی کب دنیا انہیںجو اس تمدن میں نئے ملبوس پہ پیوند پرانے چھوڑ جائیں گے اسے کہنا نفی اثبات کی اِن رہگزاروں میں حیات و موت کے سارے بہانے چھوڑ جائیں گے