میرا موضوع آج شادی اور کھانا ہے پاکستان میں اکثریتی طبقہ متوسط شمار ہوتا ہے جس کیلئے زندگی کی گاڑی اتنے مصنوعی کرپشن پے معمور معاشرے میں گھسیٹنی مشکل ہے بالکل اس دراز قد کی طرح جو بیچارہ چادر اوڑھے سر ڈھانپے تو پاؤں ننگے پاؤں ڈھانپے تو سر ننگا اچھا کھانا عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شادی پر ہم لوگوں کو کھانا کھاتے نہیں ٹھونستے دیکھتے ہیں بالکل اس اونٹ جیسے جو اپنے پیٹ میں ہفتوں کا پانی اسٹاک کرتا ہے حالانکہ اگر ہمارے گھروں میں اسلام کا بہترین نفاذ ہو تو اس بھوک اور کسمپرسی میں بھی”” صبر”” طبیعت کا خاصہ بن جاتا ہے مگر اسلام اور اس کی تعلیمات صرف نوک زباں پر ہیں عملی نمونہ خال خال ہی ملتا ہے لہٰذا ہماری ذہنی ابتری اور افلاس بدستور موجود ہے مومن ایثار اور صبر کے انعامات جان لیتا ہے تو سامنے مرغن کھانے دیکھ کر بھی وہ اتنا ہی کھاتا ہے جو ایک آنت کے برابر ہو جبکہ اسلام سے دوری نے آج معذرت کے ساتھ ہمیں وہ کافر بنا دیا جس کا شکم کبھی سِیِر ہوتا ہی نہیں پیٹ بھر جاتا ہے مگر شادیوں پر نگاہیں نہیں بھرتیں شادی کا کھانا بیٹی کے باپ کیلئے بلکہ خاندان کیلیۓ عزت بے عزتی کی وجہ بن جاتا ہے آج احساس ہماری سوچوں سے اٹھ گیا ہم بے حس ہو گئے ملک کے سیاسی رہنماؤں کی طرح ان کی طرح ہماری زندگیوں سے بھی قرآن اس کا پیغام ہم نے نکال باہر کیا اسی لئے بہ حرص ختم ہوتی ہے اور نہ لالچ آجائیے فرانس میں رہنےو الوں کی طرف یہاں کم سے کم تر انسان بھی گوشت قیمہ مرغی پھو سبزی بآسا نی خرید سکتا ہے ماسوا ان گھروں کے جہاں اہل خانہ کے پاس کوئی معاشرتی عام نظام نہیں ہے وہ عام لوگوں کی طرح اصل زندگی نہیں گزارتے بلکہ مصنوعی غیر حقیقی زندگی گزارتے ہیں اسی لئے جب کبھی انہی موقعہ ملتا ہے کی گھر میں کھانا کھانے کا یا کسی شادی میں جانے کا تو ان کی پہاڑ نما پلیٹس بتا رہی ہوتی ہیں کہ کبھی کبھار ہی انہیں یہ نصیب ہوا ہے حالانکہ یہی رویہ عام گھریلو خواتین کا بھی دیکھتی ہوں ہم سب کو کسی بیٹی کی شادی پر جانے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ فرانس میں شادی کے انتظامات کرنے اتنے آسان نہیں ہیں ابھی بہت سہولتیں مل رہی ہیں مگر پھر بھی پاکستان جیسی سہولتوں کی فراوانی ممکن نہیں ہے بے شک آرڈر پر سب مل جاتا ہے مگر محدود انداز میں وہ لوگ وج قرآن کو زندگی میں لے آئے ان کا طرز عمل مختلف دیکھنے میں آیا سکون ٹھہراؤ انتظار یقین جو قسمت میں ہے وہ ملے گا اگر روسٹ کباب ختم ہو بھی گئے تو کیا غم ؟ گھروں میں سب بنتا ہے سب بن سکتا ہے جبکہ دوسری جانب عام لوگ جو اسلام سے دور ہیں شادیوں پر کھانا تیار ہے کا اعلان ہوتے ہی خلقت خُُدا بالکل پاکستان کی عوام کا منظر پیش کرتی ہے ٹوٹ پڑیں اللہ اکبر بیش قیمت ملبوسات زیورات سے لدی پھندی جدت پسند خواتین کی پلیٹس میں کھانے کے نام پر پہاڑ کھڑے کرتے دیکھتی ہوں تو تو حیران ہوتی ہوں یہاں گھروں میں کونسی نعمت ہے جو آپکو میسر نہیں جن لوگوں کا معاشرتی سیٹ اپ اچھا ہے جو عام لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کیلئے یہ روسٹ بریانی قورمہ سلاد کباب حلوہ جات کھیر فرنی سب عام چیزیں ہیں بلکہ اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے لکھنا چاہوں گی کہ یہاں ان چیزوں کی اتنی افراط ہے کہ وہ لذت جو پاکستان میں ماں کے چولہے پر ان کے ہاتھ سے ایک بوٹی اور تھوڑے سے شوربے میں ہوتی تھی وہ نعمتوں کی زیادتی سے یہاں مفقود ہے اللہ کی نعمتوں کی قدر کا یہ طریقہ ہے یورپ میں خصوصا فرانس میں جب کسی شادی میں جائیں تو یہ سوچ کر کھانا پلیٹ میں ڈالیں کہ پلیٹ میں اتنی کھانے کی بھرمار کہیں شادی میں موجود مہمانوں کیلئے کمی کا باعث نہ بنے مومن ہر مقام پر دوسروں کیلئے خیر خواہی کا سوچتا ہے اسی جذبہ خیر سگالی کے تحت ذرا “” ہتھ ہولا رکھیں “” پلیٹس میں کھڑی پہاڑیاں دیکھ دیکھ کر اور کھانے کے گرد اتنے رش کو دیکھ کر مچھلی منڈی یاد آتی ہے اعلیٰ ترین پوشاکیں اور کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑنا پھر پلیٹس بھر بھر کر ایک دوسرے سے دور چھپ چھپ کر کھانا کونوں میں کھانا کیوں؟ پیٹ تو آپ کا ہے اس میں اتنا ہی ڈالیں جتنی اس کی ضرورت ہے پلیز لکھے کو سمجھیں اور آج کے بعد اگر آپ کہیں جائیں اگر تو گھر میں آپ اچھا کھانا نہیں کھاتے نہیں بنا سکتے پھر تو واقعی آپ حقدار ہیں بلند و بالا پہاڑ بنا کر کھانا کھانے کے لیکن اگر آپ اچھی فیملی سے ہیں جس کا کچن ماں کھانوں کی خوشبو سے مہکا کر رکھتی ہے تو ہمیں ملبوسات کی طرح کھانے میں بھی اعلیٰ ذوق اور وقار کا مظاہرہ کرنا ہوگا اس لئے کہ ہر شادی میں کسی نہ کسی صورت میں فرنچ کمیونٹی کولیگ کی صورت فرینڈز کی صورت ضرور شرکت کرتی ہے ہمیں انہیں بتانا ہے کہ ہم کافر نہیں مومن ہیں جو کھانے کے حریص نہیں کیونکہ یہ سب ہم عام دنوں میں بھی کھاتے ہیں کھانے کے ٹیبل پر کڑہائی سلائی کرتے ہوئے گھنٹوں نہ لگائیں کہ پیچھے طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں سب کا خیال کریں دیر نہ لگائیں جلدی جلدی تھوڑا تھوڑا ڈالیں پنجابی میں کہتے ہیں “”لا کڈ کے “” بچوں کو مائیں کھانا پلیٹیں بھر بھر کے دیتی ہیں اور تھوڑا سا کھا کر وہ پلیٹیں بھری چھوڑ دیتے ہیں جو ضائع ہو جاتا ہے شیطان کی آمد کی وجہ نہ بنیں شادی والے گھر میں بیٹی کے والدین کا احساس کر کے ہر چیز کو استعمال کریں یاد رکھیں یہ آخری کھانا ہرگز نہیں ہے کہ ٹھونس ٹھونس کر کھایا جائے ضرورت سے زائد ڈالنے کے بعد آدھا کھانا پلیٹس میں چھوڑنا مہذب لوگوں کا وطیرہ نہیں جہالت کا عکاس ہے ایک اہم معاملہ شادیوں پر بن بلائے مہمانوں کا مسکراتے ہوئے آجانا ہے انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے شادی پر لسٹ کے مطابق کھانا آرڈر کیا جاتا ہے ایسے میں مسٹر مسزز کے ساتھ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اللہ اکبر بیٹی والوں کی جان نکلی ہوتی ہے کہ کہیں کوئی کمی نہ ہو جائے احساس کیجئے کیونکہ احساس ہی باشعور قوم کی تعمیر کی پہلی سیڑہی ہے کھانا کھائیں ضائع نہ کریں جزاک اللہ خیر