تحریر: سید توقیر زیدی پنجاب اسمبلی نے شادی بیاہ کی تقریبات سے متعلق ترمیمی بل منظور کیا ہے جس کے مطابق گھر کے اندر بھی مہمانوں کو ایک سے زائد ڈشیں کھلانے کی اجازت ختم کر دی گئی ہے۔ شادی کے موقع پر جہیز کی نمائش پر پابندی ہو گی۔ بل کے مطابق شادی کی تقریب کے دوران آتش بازی اور گھر کے علاوہ محلے میں بھی چراغاں کرنے پر پابندی ہو گی، گلی، سڑک، عوامی مقامات اور کھلی جگہوں پر آرائشی روشنیاں لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک ماہ قید کی سزا اور 50 ہزار سے بیس لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، اس بل کا مقصد شادی بیاہ پر کھانوں اور فضول رسومات میں دولت کی نمائش اور پیسے کے ضیاع کو روکنا ہے۔ فارم ہاؤسز پر بھی تقریبات رات دس بجے کے بعد جاری نہیں رکھی جا سکیں گی۔ شادی سے متعلقہ تقریبات مثلاً نکاح، مایوں، مہندی، بارات اور ولیمہ پر مہمانوں کی تواضع ایک سالن، چاول، نان، سلاد، مشروبات اور ایک سویٹ ڈش سے کرنے کی اجازت ہوگی گلی محلوں میں مشکوک افراد پر نظر رکھنے کے حوالے سے کمیٹیاں بنیں گی۔ کنوینز ڈی سی او ہوں گے۔ کمیٹیاں کرایہ داروں کے کوائف بھی اکٹھے کر سکیں گی۔
شادی ہالوں اور عوامی مقامات پر تو پہلے ہی کھانے پر ون ڈش کی پابندی عائد ہے پھر بھی کہیں نہ کہیں بعض لوگ اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، غالباً تاثر یہ دینا مقصود ہوتا ہے کہ قانون ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکتا تاہم شادی بیاہ کی تقریبات میں بعض دیگر رسومات پر پابندی لگا کر ایک مستحسن قدم اٹھایا گیا ہے۔ شادی کی تقریبات پر جو روشنیاں گھروں اور گلیوں میں لگائی جاتی ہیں اس کے لئے بجلی ڈائریکٹ سپلائی لائنوں سے کنکشن لے کر حاصل کی جاتی ہے اس لئے اس بجلی کا استعمال ”مالِ مفت دلِ بے رحم” کے زمرے میں آتا ہے۔
One Dish law
عام طور پر یہ آرائشی روشنیاں دن چڑھے تک روشن رہتی ہیں، اس لئے کہ انہیں بند کرنے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا، پھر گلیوں اور محلوں کے اطراف میں روشنی کے لئے لائٹیں اس طرح لگائی جاتی ہیں کہ پہلے سے تنگ راستے اور زیادہ تنگ ہوجاتے ہیں۔ اس طرح راہ چلنے والے لوگوں کو جو تکلیف ہوتی ہے اس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ، گلی یا سڑک پر آرائشی روشنی ویسے بھی بے مقصد چیز ہے اور اس کا کوئی مقصد سوائے اسراف اور دولت کی نمائش کے کوئی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس لئے اس پر پابندی لگا کر حکومتِ نے عام لوگوں کی خواہش کے مطابق قدم اٹھایا ہے۔
جب سے شادی کے کھانوں پر ون ڈش کی پابندی لگی ہے لوگوں نے اس قانون کی مخالفت کے لئے راستے نکال لئے ہیں۔ مثلاً فارم ہاؤسز میں تقریبات کے انعقاد کا رواج ہو چکا ہے ان جگہوں پر جو تقریبات منعقد ہوتی ہیں ایک تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان پر شادی ہالوں کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، یہاں کھانے بھی ایک سے زیادہ پکائے جاتے ہیں اور وقت کی پابندی بھی نہیں کی جاتی۔ تقریبات بھی غیر معینہ مدت تک جاری رہتی ہیں۔ اس لئے یہ بہتر ہے کہ فارم ہاؤسز پر بھی ون ڈش کی پابندی کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح گھروں میں ہونے والی تقریبات بھی اب پابندی سے مستثنیٰ نہیں ہوں گی۔ قانون کا اطلاق اب شادی ہالوں، عوامی مقامات، گھروں، فارم ہاؤسز وغیرہ پر یکساں ہوگا اور قانون شکنی کے جو راستے نکال لئے گئے تھے وہ بند کر دیئے گئے ہیں جو اچھی بات ہے۔
دیکھاجائے تو شادی بیاہ کی تقریبات میں ون ڈش کی پابندی لوگوں کے اپنے مفاد میں ہے اس میں ان سفید پوشوں کا بھرم بھی قائم رہ جاتا ہے جو قسما قسم کے کھانوں سے اپنے مہمانوں کی تواضع کرنے کے لئے مالی وسائل نہیں رکھتے اور صاحبِ ثروت لوگ اس موقع پر نمود و نمائش کو اپنا حق سمجھتے ہیں اس نئے قانون کے ذریعے اگرچہ اس روش کی کوشش کی گئی ہے تاہم جس طرح معاشرے میں دوسرے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے اسی طرح اس قانون کی بھی پابندی اس طرح تو نہیں ہوگی جس طرح اس کا حق ہے کیونکہ جس ریاستی مشینری پر قانون کی پابندی کرانے کی ذمے داری ہے وہ بھی اس میں کافی لچک کا مظاہرہ کردیتی ہے۔ بااثر افراد اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے پابندی سے بچ نکلتے ہیں اس لئے اب اگر یہ قانون بنا دیا گیا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی مشینری کو اس قابل بنائے جو بلا تخصیص سب سے اس پر عملدرآمد کرائے اور کسی مصلحت کو قانون کی راہ میں حائل نہ ہونے دے۔
One Dish rule in Wedding Parties
عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں نے شادی پر آتش بازی وغیرہ کرنا ہوتی ہے وہ پہلے ہی متعلقہ تھانوں میں ایسا ”بندوبست” کر لیتے ہیں کہ پولیس اس آتش بازی کو نظر انداز کر دے ورنہ جو کام ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں ہو رہا ہوتا ہے وہ کوئی خفیہ تو نہیں ہوتاکہ اس سے آسانی کے ساتھ صرفِ نظر کر لیا جائے، امید کرنی چاہیے کہ اب اگر قانون کا دائرہ کار وسیع تر کر دیا دیا گیا ہے تو اسے بلا رو رعایت نافذ کیا جائے۔ تاہم اس میں یہ پہلو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ پولیس اپنی روایتی شہرت کے باعث قانون کا غلط اطلاق نہ کرے اور اسے آمدنی کا ذریعہ نہ بنا لیا جائے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی سی مالی منفعت کی خاطر قانون کی خلاف ورزی کاراستہ نکال لیا جائے۔ یہ تمام جلی اور خفی دروازے بند کرنے اور قانون پر کماحقہ عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
شادیوں کے موقع پر فلمی اور غیر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ بھی رات گئے تک اونچی آواز میں لگائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے محلے داروں، بیماروں، ضعیفوں اور صبح وقت پر سکول کالج جانے والے بچوں اور ملازمتوں پر جانے والے بڑوں کی نیند خراب ہوتی ہے۔ لیکن اپنی وقتی خوشی کی خاطر شادی کے ہنگامے میں مگن لوگ دوسروں کا قطعاً خیال نہیں رکھتے۔ ویسے تو ہمسایوں کے آرام کا خیال رکھنا دینی فریضہ ہے، جسے فراموش کر دیا گیا ہے، اس لئے حکومت کو ایسے بے بس لوگوں کی امداد کے لئے آنا پڑا ہے۔ اب اس قانون پر عملدرآمد اس انداز میں ہونا چاہئے کہ کسی کو خلاف ورزی کی جرات نہ ہو، اس سلسلے میں پولیس کا کردار اہم ہے جو بااثر افراد کے سامنے عموماً بے بس ہو جاتی ہے۔
شادیوں کے مواقع پر ہوائی فائرنگ کرکے بھی ”خوشی” منائی جاتی ہے، جس کا نقصان بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہوائی فائرنگ کی زد میں بے گناہ لوگ آجاتے ہیں اور جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کی بجائے اس کے احترام کا مظاہرہ کریں اور معاشرے کے اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ جو قانون بنایا گیا ہے اس کی مخالفت کا بظاہر تو کوئی جواز نہیں، تاہم جھوٹی انا کی خاطر جو لوگ قانون کی خلاف ورزی کریں، قانون کو ان کے خلاف حرکت میں ضرور آنا چاہئے۔