تحریر: شاہد شکیل پاکستان پہنچنے پر سسر صاحب نے ہمارا استقبال کیا انہیں بتایا کہ تین ہفتوں سے زائد قیام نہیں کریں گے ان سے جائداد کے بارے میں مفصل بات چیت ہوئی تو کہنے لگے ہر بار جب بھی عدالت کوئی فیصلہ کرتی ہے آپکے بھائی کوئی نہ کوئی روکاوٹ ڈال دیتے اور کیس کو الجھانے میں لگے رہتے ہیں اور ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ بڑا بھائی تو بیرون ملک رہائش پذیر ہے اسے کون سا حصہ چاہئے ہمیں اس گھر میں رہنے دیا جائے یا سوچنے کا وقت دیا جائے عدالت نے تمام دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد حکم صادر کیا کہ جائداد نا قابل تقسیم ہے اسے فروخت کیا جائے لیکن ہر بار جب بھی کوئی پارٹی جائداد میں دلچسپی لیتی اور موجودہ قیمت دینے پر رضا مند ہوتی تو بھائی کہتے کہ معقول قیمت نہیں ہے علاوہ ازیں جب یہ بات عیاں ہوتی کہ کیس چل رہا ہے تو سب کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔
ان معاملات کے پیش نظر آپ کے بہنوئی نے صلاح مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ جائداد کو فروخت کرنے کیلئے سختی کی جائے کیونکہ اگر جائداد تقسیم اور فروخت کے قابل نہیں تو اسے نیلام کیا جائے اور چند ماہ بعد عدالت نے فیصلہ سنایا کہ نیلامی کی جائے گی اس میں بھی بھائیوں نے کبھی پیمائش غلط ہے یا قیمت کم لگائی ہے جیسے فضول نکات سے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور ہر بار بہانے بازی سے کیس کو طوالت دی،تفصیلات سننے کے بعد میں نے کہا ٹھیک ہے میں نہ تو پہلے ان معاملات میں دخل اندازی کرتا تھا اور نہ اب کرنا چاہتا ہوں وکیل صاحب سے بات کریں کہ میں اس کیس سے دستبردار ہوتا ہوں مجھے کچھ نہیں چاہئے۔
میں یہاں سے واپس چلا جاتا ہوں اور یہاں کے معاملات بھائی جانے اور بہنیں یا بہنوئی اور پاور آف اٹارنی بھی معطل کی جائے لیکن تمام دستاویزات نئے سرے سے تیار کرنے میں مسئلہ یہ تھا کہ میرے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا نادرا آفس گئے تو انہوں نے کہا آپ جرمن شہریت کے حامل ہیں اپنا بی فارم لائیں اور ایک علیحدہ فارم پر اپنے کسی بہن بھائی یا والدین کا شناختی نمبر درج کرنا لازمی ہے اسے پر کریں تمام کاغذات پاکستان ایمبیسی جرمنی جائیں گے اور شاید دو ماہ کا عرصہ درکار ہو علاوہ ازیں سو ڈالر جمع کروائیں یہ ایک طویل پروسیزر تھا اور واپس آگئے کہ شاید بھائیوں سے دوبارہ بات چیت کے بعد کوئی حل نکل آئے تو سب سے چھوٹے بھائی نے کہا مجھے دو حصوں پر تعمیر شدہ چودہ مرلہ کے مکان میں سے دس مرلے والا حصہ چاہئے۔
Problems
جس پر دیگر بھائی بہن راضی نہ ہوئے ان کا کہنا تھا وہ سب سے چھوٹا ضرور ہے لیکن ہم سب بہن بھائی برابر ہیں اور سب کو قانونی طور پر ان کے حصے چاہئیں اور کوئی فیصلہ نہ سکا ،بعد ازاں سسرال میں سب کے سامنے بیٹھ کر اہلیہ کے مسائل سے آگاہ کیا کہ اگر اس نے میرے ساتھ ایسا ناروا رویہ اختیار رکھا تو معاملات گھمبیر ہو جائیں گے انہوں نے بیٹی کو سمجھایا کہ پاکستان میں ہر قدم پر ہر انسان کو کئی مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور اپنا گھر مت برباد کرے سسر صاحب نے کہا یہ میرے ذاتی معاملات ہیں میں یہاں رہائش پذیر ہوں اور کوشش رہے گی جلد از جلد خوش اسلوبی سے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچاؤں اور تین ہفتے بعد تینوں جرمنی واپس آگئے۔
تین ہفتوں بعد اہلیہ نے پھر وہ طوفان کھڑا کیا کہ خدا کی پناہ جلی کٹی سنائیں ، مرے ہوئے والدین پر لعنت ملامت اور بچوں پر غلیظ، شرمناک الزامات لگائے تو میں نے کہا مجھے تشدد کرنے پر مجبور نہ کرے کہنے لگی مجھے ہاتھ تو لگا پھر دیکھ تیرا کیا حشر کرتی ہوں برداشت کی حد کہاں ختم ہوتی ہے نہیں معلوم اور ایک ہلکی سی چپت گال پر لگا دی اسکے بعد اہلیہ نے پولیس کو فون کیا کہ شوہر نے ماراہے پولیس آئی اور قانون کے تحط مجھے دس دن کیلئے گھر سے بے دخل کر دیا گیا اور وارننگ دی اس گھر کے آس پاس بھی پھٹکے تو پانچ سو یورو جرمانہ ہو گا اور قانون توڑنے پر تین ماہ جیل کی سزا۔
نہایت افسردہ حالت سے بیگ میں سامان ڈالا اور اپنے ہی گھر سے بڑا بے آبرو ہو کر نکلا سسرصاحب سے رابطہ کیا اور بتایا کہ دیکھ لیجئے آپ کی لاڈلی بیٹی نے کیا گل کھلائے ہیں جس شخص کا ساری زندگی کبھی پولیس سے کوئی واسطہ نہیں رہا آج آپ کی مہان بیٹی نے ایک چپت کے بدلے میں ساری عزت مٹی میں ملا دی۔دس دن ہوٹلوں میں رہا اور گھر واپسی پر پولیس اور عدالت کا تمام خرچ ادا کرنا پڑا لیکن مہارانی کے منہ سے ایک لفظ ادا نہیں ہوا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔
Husband and Wife Quarrel
بعد ازاں چھوٹی چھوٹی بات پر سارا گھر سر پر اٹھالینے کے بعد کہنے لگی تم نے میرے والدین کی میرے ہی گھر میں بے عزتی کی تھی میں اسکا بدلہ لونگی میں تیرے بیٹے کے غلیظ موزے اور کھانے کی پلیٹ نہیں دھو سکتی میں اسکی نوکرانی یا تیری زر خرید غلام نہیں ہوں اسے کہہ اس گھر سے دفع ہو جائے میں نے بیٹے سے بات کی تو اس نے میری طرف لاچار نظروں سے ایسے دیکھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور دو ماہ بعد اسے گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ فیملی میں اسکی وجہ سے مزید دراڑیں پڑیں ،مجھ پر کیا بیتی یہ میں جانتا ہوں یا میرا اللہ ،کچھ دنوں بعد کہنے لگی اس گھر میں آپ کا کوئی بچہ پاؤں نہیں دھرے گا۔
میں ان کی نوکر نہیں ہوں کہ کھانے بناؤں اور گندے برتن دھوؤں،اپنے تمام بچوں کو کہہ دیا اب اس گھر میں نہ آنا مجھ سے ملنا ہوتو ہم باہر کسی پارک یا کافی ہاؤس میں مل لیا کریں گے،موجودہ حالات بدتر ہوچکے ہیں ہر دس دن بعد دھمکیاں اور طعنے سننے پڑتے ہیں سوچا علیحدگی اختیار کرتا ہوں اور معاملات سیٹ کرنے کے بعد اسے بتایا کہ جلد ہی یہ گھر چھوڑ دونگا کیونکہ ہماری لڑائی کا چھوٹے بچے پر برا اثر پڑتا ہے میں نہیں چاہتا کہ اسکی تعلیم میں خلل پڑے یا ہمارے چیخنے چلانے سے خوفزدہ رہے تو کہنے لگی اس کو کون سنبھالے گا ہمارا کیا بنے گا گھر میں ایک مرد کا ہونا لازمی ہے میں نے کہا تمام معاملات سیٹ کر دونگا اور تم اسی گھر میں رہو گے لیکن وہ مجھے ایموشنل بلیک میل کرنے سے باز نہیں آتی کئی جان پہچان والوں سے بات کی کسی نے کہا اس سے پوچھو وہ چاہتی کیا ہے۔
Psychiatric Patient
کوئی کہتا وہ پاگل ہو چکی ہے کوئی کہتا نفسیاتی مریض بن گئی ہے کوئی کہتا وہ اپنے خاندان کو یہاں بلانا چاہتی ہے کوئی کہتا وہ تمہیں بوڑھا گدھا سمجھ کر ہانک رہی ہے کسی نے کہا تم ایک مہرہ ہو وغیرہ وغیرہ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں ۔دس سال ہو چکے ہیں جائداد کا مسئلہ حل نہیں ہوا، میں نے پاکستان میں شادی اسلئے کی تھی کہ کسی غریب گھر کا کچھ بوجھ ہلکا ہوجائے گا کھانا بنانا اور کپڑے دھونا مجھے بھی آتا ہے لیکن ایک اچھی نیت اور خلوص کا مجھے یہ صلہ ملا ایک سال سے زائد ہو چکا ہے اپنے چھوٹے بیٹے کو نہیں دیکھ سکا بیٹی کی اس دوران شادی ہو چکی تھی اس سے ملے تین ماہ ہو چکے ہیں ،میری ہمت اور برداشت ہے کہ زندہ ہوں لیکن یہ کیسی زندگی ہے،قارئین میں نے ہر حربہ استعمال کیا کہ اہلیہ سدھر جائے لیکن میری ہر بات کو منفی انداز سے دیکھتی ہے اور ہر بات پر نہیں کہنے کے علاوہ میں میں میں کی رٹ لگائے رکھتی ہے۔
میں ایک ایسے حصار اور بھنور میں پھنس چکا ہوں کہ پھڑپھڑا تک نہیں سکتا کچھ نہیں کر سکتا،چھوٹے بیٹے کو میری ضرورت ہے ،میں چلا گیا تو وہ کیسے جی سکے گا، اگر اسی گھر میں رہتا ہوں تو باقی چار بچوں سے نہیں مل سکتا یہ کیا زندگی ہے، آپ بتائیں میں کیا کروں ،کہاں جاؤں ؟آپ کے قیمتی مشورے سر آنکھوں پر،جیسے میرے بھائی اپنی بے جا ضد کرنے پر تلے ہیں ایسی ہی حالت اہلیہ کی بھی ہے کسی بات کا کوئی اثر نہیں،کیونکہ جسمانی طور پر وہ جرمنی میں ہے لیکن ذہنی طور پر پاکستان میں اپنے والدین کے گھر میں۔پتہ نہیں قیامت کیا ہوتی ہے لیکن ایک بے گناہ زندہ انسان کو پل پل ،تڑپا تڑپا کر مارنا اور زخموں پر نمک چھڑکنا کوئی انسانیت ہے،میں نے کیا برا کیا ،ایک غریب گھر کی بیٹی سے شادی کی۔
برا کیا کہ سالے کی جان و مال کی حفاظت کی،برا کیا کہ بھائیوں کی امداد کی والدین کے فوت ہونے کے بعد کئی سال تک ان کی کفالت کرتا رہا لیکن دونوں میری محنت کی کمائی عیاشی میں اڑاتے رہے،برا کیا کہ اپنا تما م حصہ ان کے نام کرنا چاہا لیکن نہ کر سکا، چار مرلہ مکان کی تعمیر پر میری محنت کا حصہ بھی ہے جس کا میں نے کبھی حساب اس لئے نہیں رکھا کہ والدین یا بھائی بہن سے کیسا حساب کتاب ، برا کیا کہ اپنے بیٹے کو رضامند کیا کہ ایک غریب خاندان کی لڑکی سے شادی کر لو،برا کیا کہ اپنا گھر بچایا لیکن دوسرے بچوں سے رابطہ اور تعلق ختم کیا۔؟ غریب اور عزت دار گھرانے کی اہلیہ نے کئی بار طنزیہ الفاظ میں کہا کہ تو اچھا انسان نہیں ہے۔
Fault
اسی لئے تیرے بچے تجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو اکیلا ہو گیا ہے تو نے اپنی سابقہ بیویوں پر ظلم و ستم ڈھائے اور وہ تجھے لات مار گئیں ،تجھے دنیا کا کوئی انسان پسند نہیں کرتا کیونکہ تو خود غرض انسان ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اپنے بچوں کو میڈم کے قہر سے بچانے کیلئے جان بوجھ کر دور کیا ہے کیونکہ میڈم بظاہر بہت ماڈرن ہیں لیکن جادو ٹونے پر بھی یقین رکھتی ہیں جرمن بیوی سے تیس پینتیس سالوں میں شاید دو دفعہ اتفاق سے ملاقات ہوئی اور اس کاکہنا تھا اس نے مجھ سے علیحدہ ہو کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی جس کا نتیجہ وہ آج تک بھگت رہی ہے کیونکہ حالات کا سامنا نہ کرتے ہوئے ڈرگس لیتی ہے۔
دوسری مسلمان سابقہ بیوی کا کہنا ہے ہم سب کو تمھارا خیال نہ ہو تا تو ہتک عزت کا دعویٰ کرتے اور اس عورت کو وہاں پہنچا سکتے ہیں جہاں سے یہ آئی ہے ہم نہیں چاہتے کہ ایک ماں کو اسکے بچوں سے علیحدہ کریں۔میرا بڑا بیٹا ایک اچھی فرم میں کئی سالوں سے ملازمت کر رہا ہے ،میرا داماد ایک ڈاکٹر کا اسسٹنٹ ہے ،چھوٹی بیٹی یونیورسٹی میں لاء کی تعلیم حاصل کر رہی ہے چھوٹا بیٹا اگلے سال رئیل سٹیٹ ایجنٹ کا کورس شروع کرے گا۔
مجھے فخر ہے کہ میں خود تو ذرے برابر نہیں لیکن میری سوچ اور پرورش نے میرے بچوں کا مستقبل بنا دیا ہے۔ محترم قارئین میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں میری اس سچی کہانی میں شاید الفاظ کی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن دورغ گوئی سے کام نہیں لیا کیونکہ دروغ گوئی سے فیصلے کرنے ناممکن ہوتے ہیں۔مجھے آپ کے قیمتی مشوروں کی ضرورت ہے ان حالات میں کیا کروں؟۔ان تمام حالات کا ذمہ دار کون ہے میرے والدین، میرے بہن بھائی، جائداد، پاکستانی قوانین، میری اہلیہ، جرمنی، آزادی، میرے بچے یا میں؟۔