لیجئے جناب! ماہِ تقویم نے ایک صفحہ اور پلٹ دیا، 2013ء ہم سے رخصت ہوا اور 2014ء کا سورج طلوع ہوا۔ ایسے وقت میں جب جاڑا اپنے جوبن پر ہے، اسکولوں کی چھٹیاں مزید بڑھا دی گئی ہیں، لوگوں کے تمام ضروری اُمور سخت سردی کے باعث پیچ و خم کھا رہے ہیں، اور ساتھ ہی ہماری زندگی سے ایک سال بھی او ر کم ہو گیا۔ قدرت کا نظام یہی ہے جو آیا ہے اسے جانا ہے چاہے وہ انسان ہو یا وقت، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح وقت اپنی رفتار سے گزرتا چلا جا رہا ہے اسی وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی سے اس کا دن اور سال بھی کم ہوتا جا رہا ہے ، لیکن افسوس صد افسوس! کہ بجائے اس کے کہ انسان اس وقت کے گزرنے پر اپنے اعمال کا محاسبہ کرے وہ جشن اور مستی میں ڈوب جاتا ہے اور اس طرح خوشیاں مناتا ہے گویا اس کی زندگی سے وہ سال کم نہیں ہوا بلکہ اس کی زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہو گیا ہے۔
فرطِ حیرت ہوتا ہے ایسے انسانوں پر جو وقت کے گزرنے پر اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کے بجائے جشن سالِ نو کا اہتمام کرتا ہے ۔ہمارے فیض احمد فیض صاحب ویسے تو رجائیت پسند شاعر تھے مگر نہ جانے کیوں قنوطیت کا شکار ہوکر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ: ” اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے ”لیکن حقیقت میں 2013ء نے جاتے جاتے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ” قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت” اور عالمِ گیتی پر ایک نیا دور ”نیا سال” دستک دے رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ ہر عیسویں سال کے آخر میں گزرے ہوئے پورے سال کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جاتا ہے اور آنے والے سال سے متعلق قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔ اس سال کے سارے اہم واقعات کے جائے صرف ماہ دسمبر میں رونما ہونے والے چند واقعات پر اگر گہرائی سے مطالعہ کر لیا جائے تو مطلع اپنے آپ صاف و شفاف ہو جائے گا۔
پاکستان میں جاری سری کی شدید لہر کے درمیان نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے، پہاڑوں پر برفباری کی خبر پھیلت ہی سیاح نئے سال کا جشن منانے ان کی جانب رُخ کر چکے ہیں، اس سال پہاڑوں اور گلیات میں سیاحوں کی بڑی تعداد پہنچی ہے۔ مگر دوسری طرف ملک کے کئی علاقوں میں بے گھروں اور پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم بے بس لوگوں کے لیئے یہ موسم قہر بن کر آیا ہے۔ ہر سال ہمارے سامنے کچھ ایسا ہی منظر ہوتا ہے۔ سرد راتیں، خوش قسمتوں کے جشن کو خوشگوار بناتی ہیں ، تو دوسری طرف بجھے الاؤوں سے گرمی کی امید تاپتی زندگیاں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ اپنے اپنے حصے کے سکھ دکھ ہیں، لیکن جان لیوا سردی کے ان دنوں میں ہمارے نظامِ حکمراں کی انسانیت کو لقوہ کیوں مار جاتا ہے؟ کہ وہ زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کی بحالی اب تک مکمل نہیں کر سکی ہے۔ ویسے ہمارے نظام کی یہ بے حسی کسی ایک صوبے تک محدود نہیں ہے، یہ جانتے ہوئے کہ ان دنوں ملک بھر میں جان لیوا سردی پڑتی ہے، غریبوں کے لیئے کچھ نہیں کیا گیا۔
Laptop Scheem
حکومت لیپ ٹاپ تو دے رہی ہے جو کہ ایک اچھا اقدام ہے، مگر غریبوں کو اس سردی سے بچانے کے لیئے گرم کمبل اور شالیں دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے شاید۔ جب ملک اتنی بڑی غریبوں کی آبادی پر منحصر ہے تو اور بے بس و لاچار بھی ہیں تو یہ مسئلہ صرف حکومت کا ی نہیں بلکہ معاشرے کے لیئے تشویش کا باعث ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کئی رضاکار تنظمیں ایسے لوگوں کی مدد کے لیئے آگے آتی ہیں، لیکن ان کی تمام کوششیں تعداد کے آگے ناکافی ثابت ہوتی رہی ہیں۔ انہیں سردی کی مار سے بچانے میں مقامی مدد سب سے کار گر نسخہ ثابت ہو سکتا ہے مگر ہمارے یہاں تو کئی سالوں سے مقامی سطح کی حکومت ہی قائم نہیں ہو سکی ہے۔جی ہاں! آپ صحیح سمجھے بلدیاتی قیادت ہی موجود نہیں تو عام لوگوں کی دیکھ بھال کہاں؟ نئے سال کا آنا اگر ملک کے خوشگوار مستقبل کی دعا کا موقع ہے تو یہ اس میں حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کی زندگی میں کچھ خوشیاں بکھیرنے کا بھی موقع ہے۔ نئے سال کا استقبال ضرور کریں، لیکن اس عزم کے ساتھ کہ اپنی انسانیت اور معاشرتی ذمہ داری کو ہم نئے معنیٰ دیں گے۔ یہی قدر ہمارے بزرگوں نے بھی ہمیں دی ہے۔
اللہ عزوجل شانہ’ نے زمانے کو سال و ماہ و دن میں بانٹ دیا ہے تاکہ انسان کو حساب و کتاب میں آسانی ہو اور زندگی منظم انداز میں گزار سکے اور انسان ماضی و حال کا جائزہ لے کر مستقبل کی ترتیب و تدبیر کر سکے۔ انسان کی زندگی یونہی نہیں ہے کہ جس طرح چاہوں زندگی گزر دو بلکہ اللہ عزوجل نے ایک عظیم مقصد کے لیئے انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسانی زندگی ایک عظیم مقصد کے تحت ہے اور وہ آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیئے جد و جہد کرتا ہے۔ ارشادِ الہٰی ہے کہ کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہمارے طرف نہیں لوٹائے جائو گے؟ بلکہ یقینا اللہ کے حضور حاصر ہونا ہے اور حساب دینا ہے پھر کامیابی ہے یا ناکامیابی۔ اور اللہ نے زندگی گزارنے کے اسباب فراوانی کے ساتھ مہیا کیئے تاکہ آدم کی اولاد اشرف المخلوقات بن کر زندگی گزارے ۔ نطق و مجھ اور جسمانی ساخت کی عمدگی کی وجہ سے خیر البریة کا منصب حاصل کرے۔ نظم و ترتیب، زندگی کے ہر گوشہ میں مطلوب ہے، نماز، روزہ، زکوٰة جیسی عبادات کے لیئے اوقات مقرر کیئے گئے ہیں ۔
اسی طرح کھانے پینے ، سونے جاگنے وغیرہ کے لیئے ترتیب و تنظیم فطری اور واقعی چیز ہے۔ ایسی ہی قوم و جماعت ترقی کرتی ہے اور کامیابی حاصل کرتی ہے۔ جس کے اعمال منظم و مرتب ہوں۔دنیاوی معاملات میں انسان جائزہ لیتا رہتا ہے، ہر دن یا ہر ہفتہ، ہر مال یا پھر ہر سال کا جائزہ لینا اور کوتاہیوں کا تدارک کرنا اور مستقبل کے لیئے منصوبہ بنانا کامیاب و سمجھدار انسان کی علامت و طریقہ ہے جس طرح کامیاب شخص ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے اور کوتاہیوں کا تدارک کرتا ہے اور مستقبل کے لیئے مناسب منصوبہ تیار کرتا ہے، اسی طرح قوم و جماعت بھی ماضی و حال کا جائزہ لیتی ہے۔ خرابیوں و فساد کے تعین کے ساتھ مستقبل میں ان کے تدارک کے لیئے تیاری کرتی ہے ، جب ہی جاکر ترقی پذیر سے ترقی یافتہ قومیں وجود میں آتی ہیں، ہم اور ہمارے احباب ایسی سچی ترتیب نہ جانے کب مرتب کریں گے کہ یہاں بھی سُدھار کا کوئی ذریعہ بن سکے۔موجودہ صورتحال میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ عزمِ مصمم اور عملِ پیہم کے ساتھ آگے بڑھنے کی جستجو کرنا ہے، اور اہلِ دنیا پر واضح کرنا ہے کہ ہم نفرت و تعصب و خون ریزی کے داعی نہیں ہیں بلکہ ساری انسانیت کے خیر خواہ ہیں، ان کو بد اخلاقیوں اور پستیوں سے نکال کر انسانیت کی بلندی پر پہنچانا چاہیئے اور آخر کی ناکامی اور جہنم کے گڑھے سے بچا کر رحمتِ الہٰی میں داخل کرنا چاہیئے۔
اس لیئے ہم سب کو اُس رب کے دربار میں شکر و امتنان کے جذبات پیش کرنا چاہیئے کہ یہ وقت ہے خدا کے حضور التجا و الحاح کے ہاتھ اُٹھائیں ، کہ خدایا! میرے مستقبل کو میرے ماضٰ سے بہتر فرما میری نامرادیوں کو میری کامیابیوں سے اور میری پستیو ں کو بلندیوں سے بدل دے، خاص کر مسلامن اس وقت پورے عالم میں خدا سے غفلت شعاری اور دنیا اور متاع دنیا کی محبت کی جو سزا پا رہے ہی، اس پس منظر میں پوری امت کو عالم اسلام اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کی دعا کرنی چاہیئے۔ ایک بار اپنے اور مسلمانانِ عالم کی حالتِ زار پر غور فرما لیں پھر اس کے بعد بھی اگر آپ کا دل چاہے تو آپ شوق سے جشن سالِ نو منائیں، اللہ ہم سب مسلمانوں اور خاص کر پاکستان میں بسنے والوں کو جشن سالِ نو جیسی خرافات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔