فلاحی ادارے سوسائٹی کا حسن ہوتے ہیں۔ یہ حکومت کے متبادل کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ جن ایشوز کو حکومت نظر انداز کرتی ہے یا جہاں پر وہ نہیں پہنچ پاتی ، وہاں ہمیں فلاحی ادارے نظر آتے ہیں ۔ ان اداروں کو حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی بلکہ عوام کے تعاون سے یہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سے گذشتہ دو سالوں میں فلاحی اداروں کو اپنی خدمات جاری رکھنے کے سلسلے میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے ۔ انہیں مختلف چیلنجز سے گزرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے رفاہی کاموں کا دائرہ کار محدود ہو رہا ہے ۔ بیشتر اداروں کو فنڈز کی بندش ، مسلسل سکروٹنی کے عمل سے گزرنے اور کلئیرنس جیسے مسائل درپیش ہونے کی وجہ سے اپنے پراجیکٹس سمیٹنا پڑ رہے ہیں ۔ فلاحی کاموں میں رضاکارانہ وقت دینے والے افراد اور عطیات دینے والے حضرات ، دونوں ہی اپنی خدمات کا دائرہ محدود کر رہے ہیں ، جس کے نتیجے میں فلاحی و رفاہی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔ خدمات کی سرپرستی سے یوںہاتھ کھینچا جانے لگے گا تو فلاحی ادارے بند ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یوں جن کے زخموں پر ان اداروں کی وجہ سے مرہم رکھا جاتا ہے ، ان کے زخم پھر سے ہرے ہوں گے اور یہ امر خود حکومت کیلئے بھی مشکل کا باعث بنے گا۔
ہمارے معاشرے میں 70 فیصد سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ”نئے پاکستان” کے قیام کے بعد ”نومولود” حکومت جن چیلنجز کا شکار ہے ، وہ غربت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔ عام طبقے میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے اور معاشرہ عدم برداشت کی جانب گامزن ہے ۔ ایسے میں فلاحی ادارے ہی سفید پوش طبقے کا واحد سہارا ہوتے ہیں جو انہیں مایوسی کی کیفیت سے نکال کر زندگی کی طرف واپس لاتے ہیں ۔ ان اداروں کا ہونا ہمارے معاشرے کیلئے کسی غنیمت سے کم نہیں ہے ۔ ان کی سرپرستی اور انہیں چیلنجز سے نکال کر قومی دھارے میں واپس لانا اشد ضروری ہے تاکہ یہ خدمات کی ترسیل کر سکیں اور مجبور طبقے کو سکھ کا سانس نصیب ہو۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بے شمار چیلنجز اور درپیش مسائل کے باوجود بہت سے فلاحی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں ۔ اگرچہ ان کی خدمات کا دائرہ محدود ہوا ہے ، ان کے وسائل میں کمی آئی ہے ، مگر ان کا سفر جاری ہے ۔ ہاں البتہ جن غیر ملکی این جی اوز کا بوریا بستر گول ہوا ہے ، وہ اس لحاظ سے نیک شگون ثابت ہوا ہے کہ ہمارے لوگوں نے ان اداروں کو پرکھ کر ان کا ساتھ دینے کا آغاز کیا ہے ۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے جسے بہرصورت سراہنا چاہئے۔
ماہ رمضان کی آمد ہوتی ہے تو ہر ادارے کی طرف سے نہ صرف عوام الناس سے عطیات کی اپیل کی جاتی ہے بلکہ ان اداروں کی جانب سے قلم قبیلے کو بھی درخواست کی جاتی ہے کہ وہ قلم کی زکوة دیتے ہوئے ان کا پیغام قارئین تک پہنچائیں ۔ کیونکہ الفاظ بظاہر غیر متحرک اور بے وزن دکھائی دیتے ہیں مگر یہی ساکت نقطے اور بے جان لکیریں ایک دل سے نکل کر کسی دوسرے کی دنیا بنا سکتی ہیں۔
ہمارے ہاں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پیٹ کے بعد لوگوں کی صحت کا ہے ۔ ہسپتالوں میں جائیں تو آپ کو مریضوں کی لائنیں لگی ملتی ہیں ۔ تعلیم کے بعد سب سے مہنگا آئٹم علاج ہے ۔ ہر بیماری لمبی رقم مانگتی ہے ، لیکن ہر فرد اس کا بندوبست کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ۔ دوسری جانب گلی گلی کھلے نجی ہسپتال بھی عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ ایسے میں لاہور کے کینٹ میں واقع آمنہ جبار ہسپتال سفید پوش طبقے کو علاج میں آسانی فراہم کررہا ہے ۔ مریض صرف 30 روپے میں بہترین اور ماہر ڈاکٹرز سے استفادہ کر رہے ہیں جبکہ مفت دوائی اور حیران کُن حد تک سستے ترین لیبارٹری ٹیسٹ کی سہولت بھی دی جارہی ہے ۔ محدود وسائل کے باوجود اہلیان علاقہ کی خدمت میں مصروف ایک مستند مرکزِ صحت ہے ۔ آمنہ جبار ہسپتال رواں سال میں آنکھوں کے آپریشن کی سہولت کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں مشینری کی خریداری کیلئے ہسپتال کو زکوة و عطیات کی اشد ضرورت ہے۔
ثریا عظیم ہسپتال کم خرچ پر علاج کرنے والا مرکزِ صحت ہے ۔ دیگر ہسپتالوں کی نسبت سینئر ڈاکٹرز کی فیس یہاں انتہائی کم ہے جبکہ مستحقین کو علاج کی مفت سہولیات دی گئی ہیں ۔ گذشتہ سال ہسپتال نے مخیر حضرات کے تعاون سے ڈائیلیسز اور کارڈیک کا شعبہ قائم کیا تھا ۔ علاج کی بروقت سہولیات دینے کیلئے ان دونوں منصوبوں میں توسیع درکار ہے۔ تھوڑی سی بات تعلیم پر بھی کریں تو ہماری بیشتر این جی اوز کو یتامیٰ کی کفالت کیلئے فنڈز کی اشد ضرورت رہتی ہے۔
اس ضمن میں وہ ہر سال عطیات کی اپیل کرتی ہیں ۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں میں محدود وسائل ، دگرگوں معاشی حالات اور ترجیحات کی عدم دستیابی کا شکار مستقبل کے معماروں کے سر پر موجود بے یقینی کی دھند کو ہٹانے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ 45 ہزار سے زائد یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت کرکے ایک عظیم فریضہ نبھا رہا ہے ۔ رواں سال غزالی ٹرسٹ کا ٹارگٹ دیہاتوں کے مزید 2000 یتیم اور مستحق بچوں کو تعلیمی کفالت کے دائرے میں شامل کرنا ہے ۔ بلاشبہ یہ کام مخیر حضرات کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ سعدیہ کیمپس معذوربچوں کی پرورش کر رہا ہے ۔ ان کو تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں اور معاشی میدان میں بھی انہیں خود مختار بنانے کیلئے کوشاں ہے ۔ یہ تسلسل برقرار رکھنے کیلئے سعدیہ کیمپس کو زکوة و عطیات کی ضرورت رہتی ہے۔
ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اپنے اپنے تئیں دکھی انسانیت کی خدمت اور وسائل سے محروم طبقے کو سہولیات کی دستیابی ممکن بنا رہے ہیں ۔ ایسے اداروں کو دیکھ پرکھ کر ان کا ساتھ دینا ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔ موجودہ حالات اور درپیش چینلجز کی وجہ سے ایسے فلاحی اداروں کا دائرہ کار مختصر ہو رہا ہے ۔ انہیں ہم سب نے مل کر سنبھالنا ہے ۔ ان کی حفاظت کرنی ہے۔ انہیں بچانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔محروم طبقات کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کیلئے قدرت نے ہمیں ”سہولت کار” بنایا ہے اور ہمیں اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اپنی اپنی سہولت کے مطابق رفاہی اداروں کا ساتھ دینا ہے … کیونکہ یہ ہمیں نیکی کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس موقع کو دانستہ طور پر ضائع کر دیں؟ … ہمیں اس ضمن میں حکومت سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔ فلاحی ادارے ہمارے اپنے ادارے ہیں اور انہیں ہم سب نے مل کر ہی چلانا ہے ۔ آئیے قدرت کی جانب سے دی گئی ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے ان اداروں کی معاونت کریں ۔ بلاشبہ یہ امر یوم آخرت ہماری سرخروئی کا عنوان ٹھہرے گا۔