تحریر : حمیدہ گل محمد أج جس مسئلے پر میں نے قلم اٹھایا ہے وہ ہے سماجی تنظمیں۔ ہماری سماجی تنظمیں جو دن رات غریبوں، مسکینوں، ناداروں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لئے کوشاں ہیں۔
کیا کبھی ان تنظیمواں نے سوچا بھی ہے کہ وہ جو کام کر رہی ہیں آیا وہ واقعی درست بھی ہے کہ نہیں؟ اس وقت پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں سماجی و فلاحی ادارے لاتعداد فلاحی کام کر رہے ہیں جس میں تین وقت کا کھانا اور مہینے کے آخر میں راشن مہیا کرنا ہے۔
Poor People Food
جگہ جگہ مختلف تنظیموں کے دستر خوان لگے ہوئے ہیں جہاں باعزت اور مہذب طریقے سے لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے جس میں حقدار، صاحب استطاعت، خواتین، بچے، بوڑھے، منشیات کے عادی افراد، درمیانہ طبقے اور خاص کر نوجوان طبقہ جو کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ان اداروں کے اس عمل سے معاشرے کا وہ نوجوان طبقہ جو کہ اپنے بل بوتے پرنہ صرف اپنا بلکہ اپنی فیملی کا بھی بوجھ اٹھا سکتا ہے وہ نکمہ، کام چور اور بے شرم ہوتا جا رہا ہے۔
جب بغیر پیسے اور محنت کے با آسانی کبھی بکرے کا سالن، کبھی مسور کا پلاؤ، کبھی بریانی اور دیگر ڈشیں آسانی سے مہیا کر دی جائیں گی تو پھر معاشرے کا یہ طبقہ کیسے محنت مزدوری میں دلچسپی لے گا۔
Welfare and Social Institutions
سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ مہینے کے آخر میں راشن کا ایک بڑا سا تھیلا بھی دیا جاتا ہے جوکہ حقدار کے علاوہ صاحب استطاعت لوگ بھی لینے میں عار محسوس نہیں کرتے یہ معاشرے کے وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں دل مانگے مور۔ خدارا فلاحی و سماجی اداروں سے میری التجا ہے کہ وہ فلاحی کاموں میں مکمل چھان بین کے بعد حقدار کو ہی اس کا حق دیں کیوں کہ ہمارے معاشرے میں چالباز اور لٹیرے لوگوں کی کمی نہیں جو مختلف طریقوں سے صاحب استطاعت ہونے کے باوجود خود کو حقدار ثابت کرتے ہیں۔
تحریر : حمیدہ گل محمد۔ وفاقی اردو یونی ور سٹی کراچی hameedamohammad2016@gmail.com