تحریر : انجینئر افتخار چودھری میرے نزدیک تحریک انصاف کے رائے ونڈ جلسے کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ عمران خان نے ان روز روز کی چونڈیوں کا بھرپور جواب دیا سو سونار کی اور ایک لوہار کی کے مصداق اڈہ چوک کے جلسے سے اس ملک میں قائم کئی اڈوں کا خاتمہ کیا ہے جس میں پانامہ کے جوئے کے اڈے کی بربادی بھی شامل ہے آپ مانیں یہ مانیں اس جم غفیر نے پاکستان کے بارے میں قائم تآثر کایک سر خاتمہ کیا ہے کہ پاکستانی قوم کرپشن کو جرم نہیں سمجھتی۔ان چھوٹے چھوٹے ضمنی انتحابات تو پنجاب پولیس کی ضمنیاں ہیں باوجود ہزار حربوں کے تحریک انصاف کی گاڑی ٣٥٦٥ کی طرح بمپرسے بمپر سے جڑی رہی کہیں ایک ہزار اور کہیں سات ہزار۔حالت یہ تھی کہ پی ٹی آئی کے ایک شاطر امیدوار نے لمحاتی رپورٹوں سے آر اوز کی دھاندلیوں کا پیٹ چاک کیا۔فواد ہار تو گئے لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ صبح کو جو بکسے جمع کرائے گئے ان کو دکھانے کے بعد رات ١١ بجے کے اعلان کی کیا حیثیت رہتی ہے ایسے ایم این اے کی بھی اسمبلی میں کیا حیثیت ہو گی بولے گا تو پولے کھائے گا۔اسی طرح عائیشہ جٹ نے بھی ١٠٠٠ ووٹ سے ہارنے کے بعد بھی حکومتی صفوں میں ارتعاش پیدا کیا نذیر جٹ کی بیٹی کچہری چڑھتے چڑھتے رہ گئی۔چیچہ وطنی جہلم وہاڑی اور ٹیکسلا میں نون لیگ جیت تو گئی۔
مگر اس جیت کے کے ساتھ شرمندگی کے طوق بھی اسی کے گلے پڑے وہ کیسی جیت ہے جس کے بعد رات گئے اخباری نمائیندوں کو امیدوار فون کر کے کہتے رہے قسم کھا کہ میں جتی گیا آں؟رائے ونڈ جلسے نے ثابت کیا کہ قوم ان حالات میں بھی پانامہ واردات کو بھولنے کے لئے تیار نہیں گرچہ ملک کے بارڈرکی صورت حال تشویش ناک تھی لیکن عمران خان نے فقط اللہ کی مدد سے فیصلہ کر لیا گرچہ جماعت کی آستینوں میں بت تھے لیکن اس مرد جری نے جو ٹھانا اس پر عمل بھی کیا۔ادھر نون لیگی عبداللائوں نے کافی اودھم مچایا میڈیا میں ٹوکے گنڈاسے بھی دکھائے لیکن عمران خان نے لاہوری رنگ بازوں کی مثال دے کر ان کے غبارے سے ہوا نکال دی۔اس بار کسی پومی اور گلو کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ شفافیت کے علمبرداروں کے راستے کی دیوار بنے۔گجرانوالہ کے طارق گجر نے مجھے پہلے ہی کہہ دیا تھا دھرنے کہ وقت میں دوسری پارٹی میں تھا اب کسی نے روکا تو کھڑاک ہو گا۔اللہ کا شکر ہے وہاں معاملات ٹھیک رہے۔
پنجاب کے وزیر اعلی کو بھی علم تھا کہ پاکستان کے لوگ ترکی کے لوگوں کی طرح دلیر ہیں اور وہ کسی بھی غاصب کے ساتھ نہیں چاہے وہ سولین ہی کیوں نہ ہو۔قوم کو علم ہے کہ عسکری ادارے ایمان داری دلیری اور بہادری سے کام کر رہے ہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کا لوگوں کے دلوں میں کتنا احترام ہے۔قوم ان ٹٹپونجیوں سے بھی واقف ہے جو کھاتے پاکستان کا ہیں اور لگاتے کہیں اور ہیں۔دوسری بڑی کامیابی نئے سیٹ اپ کی کامیابی ہے۔تمام تنظیموں کو توڑدی گئیں حتی کے نوجوانوں کی تنظیموں کو بھی توڑا گیا لیکن جوانوں اور مدر پارٹی کے لوگوں جن میں کواتین بھی تھیںنے جلسے میں بھرپور شرکت کر کے ثابت کیا کہ لیڈر صرف عمران ہے اور پی ٹی آئی کسی نام کو نہیں جانتی سوائے عمران خان کے۔اس نے جسے نامزد کیا لوگوں نے اسے قبول کیا جہاں کہیں تھوڑے بہت اعتراضات تھے انہیں پیچھے چھوڑ کر کارکن رائے ونڈ پہنچے۔
Election
ویسے بھی پارٹی کے ٢٠١٣ کے انتحابات بھی کون سے صاف و شفاف تھے جس کا ذکر خان کئی بار کر چکے ہیں جس میں جو جیتا وہی سکندر اپنے اپنے ٹکٹ لے کر میدان میں آ گئے۔وہ پریکٹس ایک انتہائی فضول پریکٹس تھی جب خان صاحب نے ٢٠١٢ میں مرحوم احسن رشید کے ساتھ جدہ کا دورہ کیا تو میں نے اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ اس وقت الیکشن میں جا رہے ہیں بہتر ہے ہر ضلع میں مخلص کارکنوں کی کمیٹی بنائیں جو خود الیکشن نہ لڑے اور وہ ٹیم کا چنائو کرے۔ ایسا نہ کرنااپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہو گا۔اس کا پہلا خمیازہ ہم نے پشاور کی سیٹ ہار کر بھگتا۔وقت گزر گیا ان انتحابات نے پارٹی کی کمر میں چھرا گھونپا۔لوگ خود ہی یو سی کی تنظیمیں بناتے رہے اور پھر خود ہی امیدوار بن کر جیت گئے۔حالت یہ تھی کہ کونسلر بننے کے لئے نااہل لوگ میدان میں اترے سوائے چند ایک جگہوں پر۔عمران خان کو ٢٠١٢ میں پیش کی گئی تجویز پر اب عمل ہوا ہے اور اس کے بہترین نتائیج نکلے ہیں۔
پنجاب میں چار تنظیمیں بنائی گئیں اور ان کے نامزد امیدواروں نے رات دن ایک کر کے لوگ اکٹھے کئے مزے کی بات ہے سٹیک ہولڈرز کے ایک بڑے گروہ کو ٹاسک دیا گیا کہ کارکردگی دکھائیں۔جس کا عملی نمونہ ہم نے پرسوں دیکھا۔پارٹیوں میں دھمال چودھری بھی ہوتے ہیں جو ایک آدھ گاڑی لا کر اودھم مچا کر بتاتے ہیں کہ ہم بھی ہیں لیکن اب خلیل خانوں کی فاختائیں دیواروں پر ہی رہیں گی۔تحریک انصاف کی اس نئی حکمت عملی نے ان لوگوں کو موقع دیا ہے جن کے پاس وسائل ہیں اور وہ الیکشن لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ان کے ساتھ جنرل سیکریٹری اور دیگر عہدوں پر نظریاتی جیالوں کو بھی موقع دیا گیا کہ وہ ثابت کریں۔اس مکس بلینڈ نے انتحابات میں بھی مثبت نتائیج دئے ہیں۔جہلم ٹیکسلا بورے والہ چیچہ وطنی کے انتحابات اس کا ثبوت ہیں اگر ٹکٹ اور کو دئے جاتے تو شائید شکست کا مارجن کئی ہزاروں میں ہوتا۔
پرسوں کے جلسے میں نون لیگیوں کے منہ اس وقت بند ہو گئے جب سیف اللہ نیازی قائد کے ساتھ سٹیج پر موجود تھے۔میں اسی روز واپس آ گیا تھا مجھے رات کو ٹاک شو میں جانا تھا وہاں نون لیگی نے سوال اٹھایا کہ سیف اللہ پارٹی چھوڑ گئے ہیں تو اس کا جواب خود سیف اللہ جو کارکنوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں قائید کے ساتھ تھے۔بعض نادان دوستان کی بغل میں گھس کر یہ تآثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پارٹی کی بجائے ان کے ساتھ ہیں اس کا علم انہیں بھی ہے اور ان دوستوں کو بھی ہونا چاہئے جو کاٹھ کی ہنڈیا دوبارہ چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔پارٹیوں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ پیغام سب پر واضح ہے کہ پارٹی میں کوئی گروپ وزن نہیں رکھتا صرف اور صرف عمران خان کا گروپ ہے ۔یار لوگوں نے صرف سیف اللہ نیازی کا ہی نہیں عطاء اللہ عیسی خیلوی کا بھی ڈھنڈورہ پیٹا سب رائے ونڈ میں تھے۔
Imran Khan
رائے ونڈ جلسے میں عمران خان نے اپنے اوپر یہ الزام کہ وہ ہند کے ساتھ دوستی کے پر چارک ہیں اگر جناب عبدالرشید ترابی صاحب اسے دیکھ رہے ہیں تو جواب ضرور دیں۔ویسے بھائی کیا جواب دیں گے تازہ تازہ نون کے ممنون ہوئے ہیں اور اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ میں اس موقع پر اپنے تمام دوستوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو وہاں جذبوں کے ساتھ پہنچے۔عمران خان نے مودی کی جو کلاس لی ہے سچ پوچھیں اس طرح کی کلاس اقوام متحدہ میں ذوالقار علی بھٹو نے لی تھی۔مودی نواز جوڑی پر بھرپور وار کر کے عمران خان نے ثابت کیا کہ پاکستان کا اصل لیڈر وہ ہے تیسری اہم بات پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے بغیر جو شو ہوا اس سے بلاول بھٹو کے گلی گلی میں شور کے نعرے کو کمبل چرانے کی حرکت ثابت کر کے عمران خان نے ثابت کیاکہ اصل اپوزیشن وہ ہیں۔خورشید شاہ ایک نمائیشی لیڈر ہیں جس طرح آزاد کشمیر اسمبلی میں اصل اپوزیشن عتیق احمد خان ہے چودھری یاسین نہیں اسی طرح خورشید شاہ دکھاوے کی اپوزیشن کر رہے ہیں۔
عمران خان جیسے ہی نوز شریف کو پچھاڑتے ہیں میاں صاحب کی حمائت اور بعد میں ایک آدھ شرلی چھوڑنے کے لئے شرلی چھوڑ دیتے ہیں۔رات ان کے بھائی کے بارے میں رپورٹ تھی کہ انہیں بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا ہے شاہ صاحب کا ٹبر اس دھندے میں لگا ہوا ہے حج کرپشن کے دنوں میں رافع شاہ ڈائریکٹر حج رہے سلمان ارائیں ان کے دوست کا بیٹا ہے اسے حاجیوں کو سمیں دینے کا ٹھیکہ دیا گیا سرادر یوسف دوست ہیں حج کامیاب ہوا لیکن کیا تصدیق یا تردید کریں گے؟ کامران بٹ کون ہے ؟حاجیوں کی بلڈنگوں کے کمیشن کس کس نے کھائے۔
لوگوں کا منہ کیسے بند کرو گے بحراللہ ہزاروی،رافع شاہ،کامران بٹ ،سہیل علی خان،آفتاب کھوکریہ لوگ حامد سعید کاظمی کی جڑوں میں بیٹھے یا نہیں؟ویسے بھی اپنے ان کالموں میں دس بار لکھا تھا کہ بڑے چور کے خلاف جدوجہد اور بڑے چوروں کے ساتھ مل کر نہیں کی جا سکتی۔اللہ کا شکر ہے۔یہ بات یاد رہے کہ کسی صورت بھی اسلام آباد میں یہ شکلیں نہ دکھائی جائیں جنہوں نے ٢٠١٤ کے دھرنے کو ناکام بنایا۔یہ جتنے بھی مولوی ثناء اللہ بن جائیں لیڈر تو ان کا زرداری ہے ناں۔شاباش عمران خان۔