اہل شعور صدیوں سے علم و ہنر کی طاقت سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ جوق ومیں علم حاصل نہیں کرتیں وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرتیں مطلب یہ کہ اُن کے ترقی پذیر ہونے کی وجہ علم سے دوری ہے۔ یعنی علم ترقی کی ضمانت ہے۔ جن قوموں نے علم کے حصول میں آسانیاں پیدا کیں اور اپنی نسلوں کی تعلیم تربیت کی خاطر اپنے وقت اور وسائل کی قربانی دی آج وہی قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں علم دنیا کی واحد دولت ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا۔ علم انسان کو کائنات کی سب مخلوقات سے افضل کرتا ہے۔
اہل علم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ قلم بندوق سے زیادہ طاقتور ہے ۔یہ بات بھی ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ بندوق کے زور پر امن قائم نہیں کیا جاسکتا جبکہ قلم قیام امن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ جہالت کاعلم سے خوفزدہ ہونا فطری عمل ہے ۔پوری دنیا قلم کتاب کی طاقت سے واقف ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ دور جدید کا طاقتور انسان قلم و کتاب کا دامن چھوڑ بندوق کی نوک پر امن قائم کرنے کا خواہاں ہے ۔بندوق کے دور میں تعلیمی جہاد یقینا ایک مشکل کام ہے۔
خاص طور پر عورت ذات کے لئے وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کو یکسر پڑھنے لکھنے کی اجازت نہیں۔ سوات کی ملالہ یوسف زئی نے ایسے معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے آواز بلند کی تو اُسے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ قاتلانہ حملے میں بال بال بچی۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں عالمی امن ایورڈ یافتہ ننھی ملالہ یوسف زئی کی جس کی سالگرہ 12 جولائی کو پوری دنیا میں منائی گئی۔
سوات میں دہشتگردوں کے ہاتھوں گزشتہ اکتوبر میں شدید زخمی ہوکر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسف زئی کے نام پر اس کے یوم پیدائش 12 جولائی کو اقوام متحدہ نے عالمی یوم ملالہ منایا۔ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اس سلسلے میں بہت سی تقریبات ہوئیں۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کواٹر میں سب سے بڑی تقریب یوتھ اسمبلی کے اجلاس کی شکل میں منعقد ہوئی۔جس میں دنیا کے ایک سو ممالک سے آنے والے ایک ہزار سے زائدنوجوانوں نے شرکت کی۔
اس تقریب سے ملالہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون ،جنرل اسمبلی کے صدر ووک جیریمک اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن برائون،جو اقوام متحدہ کے عالمی تعلیم کے سفیر ہیں نے بھی خطاب کیا۔گورڈن برائون نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملالہ دنیا کی سب سے بہادر لڑکی ہے ،پوری دنیا اس کے خوابوں کی تعبیر چاہتی ہے ،جس مشن سے روکنے کے لئے دہشتگردوں نے ملالہ پر گولی چلائی ملالہ آج بھی بڑی دلیری کے ساتھ اُس مشن کو آگے بڑھا رہی۔
Ban Ki Moon
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے طالب علموں پردہشت گردوں کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو صرف اس لئے ہلاک نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ سکول جاتے ہیں۔ انہوں نے ملالہ کو جرات کی علامت قرار دیا۔ جنرل اسمبلی کے صدر ووک جیریمک نے کہا کہ ملالہ کی کوششیں لاکھوں افراد کی اُمیدوں کا محور ہیں۔ تعلیم پھیلانے کے لئے آج نوجوانوں کی نئی سپرپاور وجود میں آچکی ہے ۔ملالہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ طالبان کی گولی سے ملالہ نہیں مری بلکہ کمزوری ،خوف اور نااُمیدی مرگئی ،طاقت اور حوصلوں کو زندگی ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگرد تعلیم سے خوفزدہ ہیں، قلم سے دہشت گردی کا مقابلہ کروں گی ،مجھے مارنے والے بھی سامنے آجائیں تو گولی نہیں ماروں گی، میں ہر اس شخص کی آواز ہوں جس کی آواز کوئی نہیں سنتا، جو پرامن ماحول میں رہنے اور حصول تعلیم کے لئے جدجہد کر رہا ہیں، قلم اور کتاب دنیا کے سب سے طاقتور ہتھیار ہیں، ایک طالبعلم، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں، آج کادن ہراس لڑکی اور لڑکے کادن ہے جس نے اپنی آواز اپنے حقوق کے لئے اُٹھائی، میں طالبان اور دوسرے تشد پسندوں کے بچوں کے لئے بھی تعلیم چاہتی ہوں، تعلیم ہی سب مسائل کا واحد حل ہے اوردنیا میں تعلیم ہی سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
دہشتگرد خواتین کی تعلیم سے ڈرتے ہیں۔ میرا دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ تعلیم کوعام کریں ،تمام سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں بھی تعلیم کومعیاری بنانے میں اپناکردار ادا کریں ۔قارئین محترم ملالہ کی تقریر کوئی نئی نہیں ہے ایسی لاکھوں تقریریں ہوچکی ہیں ،بڑے بڑے ہوٹلوں میں بڑی بڑی تقریبوں میں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، معذروں کے حقوق، امن اور تعلیم کے ساتھ دیگر کئی معاملات پر بڑی خوبصورت تقریریں کی جاتیں ہیںجن کا مقصدصرف اور صرف شہرت حاصل کرنا ہوتا ۔خیر میں ملالہ کی تقریر پر کسی قسم کی تنقید نہیں کرنا چاہتا۔
Pakistan Education
میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم سے نفرت یا دشمنی رکھنے والے پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جوآج بھی جہالت کے اندھیروں میں زندگی گزار رہیں۔ ان پر گولی چلانے کی بجائے تعلیم کی افادیت سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اگر پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلوں کی طرح بندوق اُٹھا لیں گے تو پھر جاہل اور اہل شعور کا فرق معلوم کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ بظاہر تو ملالہ یوسف زئی نے اپنے خطاب میں طالبان کو تعلیم، امن، انصاف اور خواتین کا دشمن قراردا لیکن ملالہ کا کہنا کہ اگر مجھے گولی مارنے والے میرے سامنے بھی آجائیں تومیں اُن پر گولی نہیں چلائوں گی۔
مطلب کہ ملالہ اپنے اُوپر جان لیوا حملہ کرنے والوں سے بدلہ نہیں لینا چاہتی ،بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اُن کے بچے بھی اچھی تعلیم حاصل کریں تاکہ دنیا سے جہالت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔بذریعہ قلم جہاد جاری رکھنے کا اعلان اور قلم وکتاب کو دنیا کے سب سے طاقتور ہتھیار قرار دے کر ملالہ نے طالبان کے ساتھ ساتھ دنیا کی سپرپاوروں کو بھی شرمندہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کواٹرمیں ہونے والی شاندارتقریب میں ملالہ نے امن پسندلیکن دنیا کو خطرناک بارودی اسلحے کے ڈھیر پر بیٹھانے والوں کو بتا دیا کہ اگر بارود کی بجائے قلم کی طاقت سے جنگیں لڑتے تو آج دنیا میں امن ہی امن ہوتا۔
اگر جدید سے جدید اسلحہ بنانے کی بجائے معیار تعلیم کی طرف توجہ دی ہوتی تو آج کسی ملالہ پر کوئی تعلیم دشمن قاتلانہ حملہ نہ کرتا ،ملالہ پر جن ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی اُن کو بنانے والی فیکٹریوں کی جگہ اگر معیاری سکول ،کالج اور یونیور سٹیاں بنی ہوتیں تو یقینا آج حملہ آوروں کے ہاتھ میں بھی بندوق کی جگہ قلم و کتاب ہوتے۔ ایک چھوٹی سی بچی ملالہ جو دنیا کو پر امن دیکھنا چاہتی ہے جس کے نزدیک قلم کی طاقت سے دنیا میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
جس کے نظریات و خیالات کو دنیا بھر نے تسلیم کرتے ہوئے عالمی امن ایورڈ سے نوازا۔ میرے نزدیک ملالہ کے معصوم روئے نے طالبان سمیت دنیا کی ہر اُس طاقت کو شکست دی ہے جو خونی جنگوں کے ذریعے دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ شاباش ملالہ لگے رہوجیت قلم و کتا کی ہوگی۔ بندوق والے سب ہار جائیں گے چاہے داڑھی والے ہوں یا کلین شیو۔چاہے طالبان ہوں یا ڈرون گرا کر معصوم بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو بلاتفریق قتل کرنے والے سب ہار جائیں گے۔اسی ہار کے ڈر سے یہ لوگ علم سے نفرت کرتے ہیں۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com. 03154174470