ویل ڈن عائشہ فاروق، ویل ڈن

Pakistan

Pakistan

یہ 21 اپریل 2006ء کی بات ہے، جب پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے اسلام آباد کے مقامی صحافیوں کی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بری فوج میں طبی شعبے کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں 30 خواتین کو بھرتی کیا جائے گا اور انہیں سگنلز، تعلقات عامہ، کمپیوٹر سیکشن، تعلیمی اور قانونی شعبوں میں بحیثیت کیپٹن اور میجر مقرر کیا جائے گا، اُس وقت کے فوجی ترجمان کایہ بھی کہنا تھا کہ فوج میں خواتین کی تعیناتی کا عمل بتدریج بڑھایا جائے گا،اِس سے قبل پاک فوج میں خواتین کی بھرتی کا عمل صرف طبی شعبے تک ہی محدود تھا، جس میں تقریبا 650 خواتین بحیثیت ڈاکٹرز اور 2300 خواتین بطور نرسز کام کر رہی تھیں۔

جن میں ایک میجر جنرل، 13برگیڈئر، 26 کرنل اور 38 لیفٹیننٹ کرنل کے عہدوں پر تعینات تھیں،اِس پریس کانفرنس میں انہوں یہ انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ ماہ پاک فضائیہ میں چار خواتین کو تربیت کے بعد بحیثیت لڑاکا پائلٹ بھرتی کیا گیا ہے، لڑاکا فورس میں یہ پہلی خواتین تھیں جنھوں نے ائیر فورس میں شمولیت اختیار کی تھی، میجر جنرل شوکت سلطان کا کہنا تھا کہ اگر اِن خواتین کی کار کردگی تسلی بخش رہی توآئندہ فوج میں خواتین کو بحیثیت لڑاکا فوجی افسر بھی تعینات کیا جاسکتا ہے ۔30مارچ 2006ء کو افواج پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار چار خواتین نے اپنی تربیت مکمل کرکے فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

فلائنگ بیجز حاصل کرنے والی اِن خواتین میں صبا خان، نادیہ گل، مریم خلیل اور سائرہ بتول شامل تھیں، جنھوں نے 32مرد کیڈٹس کے ساتھ ایک سو سولہواں جنرل ڈیوٹی پائلٹ کورس مکمل کرکے فضائی فورس میں شمولیت اختیار کی تھی، سب سے اہم بات یہ تھی کہ اِن چار فائٹر خواتین پائلٹ میں سے دو کا تعلق پاکستان کے سب سے زیادہ پسماندہ صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تھا، جبکہ ایک کا تعلق مذہبی اعتبار سے سخت گیر خیالات رکھنے والے صوبہ سرحد اور ایک کا صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور سے تھا، رسالپور اکیڈمی( جوکہ پاکستان میں فائٹر پائلٹ کا کورس کرانے والی سب سے اہم اور بڑی اکیڈمی میں شمار ہوتی ہے۔

1910ء میں انگریزوں نے قائم کی تھی، یہاں پہلی جنگِ عظیم کے وقت فلائنگ کلب قائم کیا گیا، قیام پاکستان کے بعد1948 ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے رسالپور فلائنگ سکول کو کالج کا درجہ دیا، بعد میں جنرل ایوب خان نے 1967ء میں اِسے اکیڈمی میں تبدیل کردیا تھا۔) میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر اِن چاروں خواتین کی کامیابی پر اُس وقت کے نائب آرمی چیف جنرل احسن سلیم حیات نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ کامیاب پائلٹ خواتین نے مردوں کی طرح مشکل ترین تربیتی مراحل میں خود کو ثابت قدم رکھا۔ 13 جون 2013ء کو عائشہ فاروق نے پاک فضائیہ کی پہلی خاتون جنگجو فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

Fighter jet flying

Fighter jet flying

یہ اعزاز انہوں نے فائٹر پائلٹ کا آخری امتحان پاس کرکے حاصل کیا،وہ اِس وقت پاک فضائیہ میں موجود پانچ خواتین لڑاکا پائلٹس میں واحد خاتون پائلٹ ہیں جو چینی ساختہ F-7PGلڑاکا جیٹ اڑانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور پاک فضائیہ میں موجود دیگر مرد فائٹر پائلٹ کے شانہ بشانہ ملک کی فضائی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دینے کیلئے ہر گھڑی تیار ہیں، سر پر اسکارف اور پاک فضائیہ کے پر وقار سبز یونیفارم میں ملبوس دکھائی دینے والی 26 سالہ عائشہ فاروق ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، وہ اُن 19پاکستانی خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ دس سالوں میں پاکستان ائیر فورس سے تربیت حاصل کی۔

نازک جسامت عائشہ فاروق کے والد فاروق کا تعلق صوبہ پنجاب کے تاریخی شہر بہاولپور سے تھا،جن کے سات سال قبل انتقال کے بعد انہوں نے پاکستان ائیرفورس جوائن کرنے کا فیصلہ کیا، عائشہ فاروق کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ وہ جہاز جیسی چیز اڑائیں گی، خاندانی دبائو عورتوں کو مسلح افواج میں کام کرنے سے روکتا ہے کہ یہ مردوں کے کام ہیں، اِس قسم کی باتیں خواتین کو جنگی پائلٹ کی طرف بڑھنے سے روک دیتی ہیں، چنانچہ ابتداء میں انہیں بھی اپنی بیوہ اور غیر تعلیم یافتہ والدہ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر پاکستان ائیر فورس میں شمولیت اختیار کر ہی لی۔

جہاں انہیں اپنی محنت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا مواقع ملا، خوش قسمتی سے انہیں کسی بھی مرحلے پر صنف نازک ہونے کے ناطے امتیازی سلوک کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔ نرم گفتار عائشہ فاروق اِس وقت پاکستان کے گرم ترین علاقے سرگودھا کی مصحف ائیر بیس جہاں ٹیمپریچر 50 ڈگری تک چلا جاتا ہے، میں تعینات ہیں،واحد خاتون جنگجو پائلٹ ہونے کے ناطے اپنے مرد ساتھیوں کے بارے میں عائشہ فاروق کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ مختلف نہیں محسوس ہوتا، ہماری سرگرمیاں ایک سی ہیں، دشمن پر بمباری کرنا ہمارا پیشہ ہے،وہ کہتی ہیں کہ اپنے ملک کے جغرافیائی محل وقوع اور دہشت گردی کی وجہ سے یہ بہت اہم ہے کہ ہر وقت تیار رہا جائے۔

Ayesha Farooq

Ayesha Farooq

عائشہ فاروق گزشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان ایرفورس (PAF) کی 19ویں خاتون پائلٹ ہیں، اُن کے ساتھ پانچ خواتین اور بھی ہیں، تاہم ابھی انہیں جنگ میں شریک ہونے کیلئے فائنل ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرناہے۔ قارئین محترم حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں خواتین کا یہ بدلا ہوا رویہ اِس بات کا عکاس ہے کہ خواتین کا پاکستانی دفاعی افواج میں شمولیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، سکواڈرن 20 کے ونگ کمانڈر نسیم کہتے ہیں کہ اب
زیادہ تر خواتین فوج میں شمولیت اختیار کررہی ہیں،خود انھوں نے 25 خواتین پائلٹ تیار کی ہیں، جن میں عائشہ فاروق بھی شامل ہیں،یہ پائلٹس بہ آسانی چینی جنگجو جہازF-7PG اڑا سکتی ہیں۔

ونگ کمانڈر نسیم کہتے ہیں کہ اگرچہ گزشتہ دہائیوں کے دوران عورتوں نے پاکستانی ہوائی سرحدوں کی خلاف ورزی اور باغیوں کے حملوں کے حفاظتی کاموں میں پیش رفت کی ہے، مگر بہت کم خواتین ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورس(EATF) کا حصہ بنی ہیں،ویسے تو پاکستان کی تینوں افواج میں طبی اور دیگر شعبوں میں خواتین کام کرتی ہیں، مگر لڑاکا فورسز میں پاک فضائیہ نے بری اور بحری افواج پر سبقت حاصل کرتے ہوئے خواتین کو بھرتی کیا، اس وقت 316 خواتین پاک فضائیہ کا حصہ ہیں، جبکہ 5 سال قبل یہ تعداد صرف 100 تھی، اسی طرح 4000 سے زائد خواتین بری فوج کے دیگر شعبوں میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔

حالانکہ پاکستانی خواتین پر میدان جنگ میں لڑنے کیلئے اب بھی پابندی عائد ہے،مگرحا لیہ برسوں میں پاکستان کی دفاعی فورسز میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداداِس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین کے رویوں میں تبدیلی آرہی ہے اور وہ دفاع وطن کیلئے مردوں کے شانہ بشانہ اپنی قومی وملی خدمات ادا کرنے کیلئے آگے آکر ایک نئی روایت کی بنیاد رکھ رہی ہیں،جس میں عائشہ فاروق اور اُن کی ساتھی پائلٹس صبا خان،نادیہ گل، مریم خلیل اور سائرہ بتول سر فہرست ہیں، ہم اِن تمام قوم کی قابل فخر خواتین پائلٹس کے جوش و جذبے اور عزم و ہمت کو سلام کرتے ہیں، جنھوں نے اِس میدان میںاپنی قابلیت اور اہلیت کا لوہا منواکر آنے والی خواتین کیلئے نئے دروازے کھولے ہیں۔

Ms. Fatima Jinnah

Ms. Fatima Jinnah

ویل ڈن عائشہ فاروق، ویل ڈن ویل ڈن،صبا خان، نادیہ گل، مریم خلیل اور سائرہ بتول، ویل ڈن۔ یہ درست ہے کہ عورت اگرچہ صنف نازک ہے مگر اپنی صلاحیت، ذہانت اور سمجھ بوجھ میں صنف قوی سے کسی طور پر بھی کم نہیں ہے، تاریخ انسانی اِس بات کی گواہ ہے کہ ملک و قوم کو جب بھی کسی مہم جوئی کا سامنا کرنا پڑا تو خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا،ہماری تاریخ میں مسلمان خواتین کے مجاہدانہ کردار اور بہادری کے بے شمار واقعات موجود ہیں، قیام پاکستان کی تحریک میں سامراجی قوتوں کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور بی اماں جیسی تاریخ ساز شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔

اوربے شمار خواتین نے جانوں کی پرواۂ کئے بغیر حیرت انگیز کارنامے سرانجام دے کر یہ ثابت کردیا کہ اُن کے کردار کے بغیر پاکستان کا وجود میں آنا بہت حد تک ناممکن سی بات تھی، تاریخ میں وہ منظر آج بھی محفوظ ہے جب پنجاب سول سیکرٹریٹ کی عمارت کے گرد سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود فاطمہ صغریٰ نامی سولہ سالہ لڑکی نے انگریز سامراج کا جھنڈا اتارکر پاکستان مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا یا تھا اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح بھی مسلم خواتین کے جوش و جذبے اور عزم و عمل سے متاثر ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ بہنو اور بیٹیو اب مجھے یقین ہو گیا ہے۔

کہ میرا مشن کامیاب ہوگا، اِس لیے کہ اب ہندوستان کی مسلمان عورت نے بھی آزادی کے مفہوم کو سمجھ لیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ اب میری قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی جنگ آزادی میں شریک ہوں گی مسلمان خواتین نے جس طرح پاکستان کے حصول میں مثالی کردار ادا کیا، وقت کا تقاضا ہے کہ اب خواتین پاکستان کی سالمیت اور ملکی سرحدوں کے تحفظ و دفاع کیلئے بھی اپنا بھرپور انقلابی کردار ادا کریں، یہ مسلمہ اصول ہے کہ عورت اگر اپنے اندر انقلابی سوچ پیدا کرلے تو قوموں کی تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی۔

تحریر : محمداحمد ترازی
mahmedtarazi@gmail.com