محمد عامر عاشم خاکوانی صاحب کا” زنگار نامہ”مختلف موضوعات پر اُن کے لکھے گئے ،کالموں پر مشتمل ایک تازہ شائع شدہ کتاب ہے۔زنگار اس مادے کو کہتے ہیں جو شفاف شیشے کی پچھلی سمت لگاتے ہیںتو شیشہ چیزوں کی اصلی شکل میںدکھانے کے قابل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عامر خاکوانی نے اپنی تحریروں میں ا فراد اور معاشرے کو حالات کی صحیح تصویر دکھانے کی کوشش کی ہے۔بل لکل درست، عامر خاکوانی کے کالم معاشرے کا عکس ہیں جو بڑی عرق ریزی سے لکھے گئے ہیںاور یہ سبق حاصل کرنے کا خزانہ ہے۔اس کتاب کا اصل نام تو ”زنگار نامہ” ہے مگر ہم نے عامر خاکوانی کانام ساتھ جوڑ کرقاری کے لیے آسانی مہیا کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ وہی مشہور و معروف کالم نگار ہے جن کے کالم قاری اخبارات میں مطالعہ کرتے رہے ہیں۔اس سے ہمارا مقصد قاری کو کتاب خرید کر پڑھنے پر اُکسانا ہے۔ یہی کام ہم نے خود بھی کتاب خرید کر کیا ہے۔یہ کتاب خوبصورت گیٹ اَپ اوربہترین کاغذ پر ،سوچ پبلیشر، غزنوی اسٹریٹ اُردو بازارنے لاہور سے شائع کی ہے۔
عامر خاکوانی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اُردو ڈائجسٹ سے شروع کی۔روزنامہ جنگ میں رہے۔روز نامہ ایکسپریس،روز نامہ دنیا اور اب روز نامہ ٩٢ میں بطور میگزین ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔ ٢٠٠٤ء سے زنگار،لوگو( عنوان) سے کالم لکھنے شروع کیے۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔اس کتاب کی تقریب پذیرائی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹر نیشنل کے اشتراک سے پچھلے جمعہ کو یو فون ٹاور ٥٥، سی سروس روڈ بلیو ایریا اسلام آباد میں منعقد پذیرہوئی ۔غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر سید عامرمحمود صاحب نے اس تقریب کی صدارت اور ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹر نیشنل کے کنٹری ہیڈ نے کمپیرنگ کی ۔ مہمان خصوصی وفاقی وزیرتحریک انصاف علی محمد خاں صاحب تھے۔ اس تقریب میں صحافیوں،کالم نگاروں اور دانشوروں کے علاوہ اسلام آباد کے مختلف حلقوں کے افراد نہیں شرکت کی۔”رنگارنامہ” پروگرام کے اختتام پر کتاب فروخت کے لیے پیش کی گئی۔ ہم نے بھی یہ کتا ب وہیں سے حاصل کی۔ اس کا مطالعہ کیا اور حسب عادت اس پر اپنی سمجھ کے مطابق تبصرہ لکھا۔اخبارات کو ای میل کیا تاکہ اس کتاب تک قاری کی رسائی ممکن ہو۔ پھر اس کتاب کو اپنی لائبریری کی زینت بنا دیا۔
عامر خاکوانی نے اس کتاب کو دس مختلف بابوں میں تقسیم کیا ہے۔مو ٹیو یشنل کالم،عمل خیر،کتابوں کی دنیا،زندگی کے سبق،یادیں، تصوفروحانیت،فلم ٹی وی، نقطہ نظر، معلومات شخصیات معلومات اورخاندان تربیت پر مشتمل ہیں۔ان مضوعات کو دیکھتے ہوئے قاری اندازہ لکھا سکتا ہے کہ عامر خاکوانی کے دل میں اصلح کا جذبہ موجود ہے۔ہمیں بھی عامر خاکوانی کے کالموں میںکو ئی سستی شہرت حاصل کرنے یا کسی نامعلوم ہستی کی خدمت کرتے ہوئے محسوس نہیںہوئے۔ ورنہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر کالم نگار کسی سیاسی پارٹی کے ترجمان بنے یا کسی خاص حلقہ کے بیانیہ کو عام کرنے پر اپنا زور لگاتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ سیاسی گروہ کے غلط کاموں کی تعریفوں کے پہاڑ کھڑے کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کرنے سے معاشرے کی اصلح نہیںبلکہ معاشرہ خراب سے خراب تر کی طرف چلا جاتا ہے۔مثلاً گذشہ سیاسی دور کی بات کرتے ہیں تو یہ سب کو معلوم ہے کہ کسی اپوزیشن پارٹی یا کسی حکومتی ادارے نے سابقہ وزیر اعظم کے خلاف آف شور کمپنی کا اشیو خود پیدا نہیں کیا تھا۔بین الاقوامی آزاد صحافیوں نے اس کا کھوج لگایا اور پوری دنیا میں اس کو عام کیا کہ کسی طرح سیاستدان اور سرمایا دار اپنے اثاثے عوام سے چھپاتے ہیں۔ حسن اتفاق کہ اس میں ہمارے سابقہ وزیر اعظم کے خاندان کا نام بھی آیا۔اپوزیش جو کرپشن کے خلاف مہم چلا رہی تھی، آف شور کمپنی کے معاملہ کو خوب اچھالا ۔وزیر اعظم خود ہی پریشان ہو گئے۔دو دفعہ ایکڑونک میڈیا اور ایک دفعہ پاکستان کی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں ساری داستان سنائی۔ عدلیہ کو خود خط لکھا کہ اس کی تحقیق کر کے دودھ کادودھ اور پانی کا پانی عوام کے سامنے پیش کرے۔سپریم کورٹ نے کیس سنا۔ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے آئین کی دفعہ٦٢۔٦٣ پر پورا نہ اُترنے پر سای زندگی کے لیے سیاست سے نا اہل قرار دے دیا۔ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی ۔ عدلیہ نے اثاثوں کے ثبوت مانگے تو ایک قطری خط پیش کیا۔ عدالت میں اثاثوں کا ثبوت نہ پیش کرنے کی بنیاد پر سزا سنائی۔
اپنے اقتدارمیں جن کالم نگاروں کو نوازتے یا مراعات دیتے رہے ان کے اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ملک کی معزز عدلیہ اور ملک کا دفاع کرنے والی فو ج کے خلاف مہم چلائی۔ کالم نگاروں سے اپنے بیانیہ کے مطابق کالم لکھوائے ۔عدلیہ اور فوج کو بدنام کرنے کے لیے پورے ملک میں ،شہروں شہر ریلیاں اور جلوس نکال کر ووٹ کو عزت دو کی بات کی گئی۔ مطالعہ کے دوران ہمیں عامر خاکوانی کی زیرِ بحث کتاب میں ایسی کوئی بھی جانبداری نظر نہیں آئی ۔ بلکہ غیر جانبدارانہ صحافت کا اعلی معیار سامنے آیا جس سے ملک کا روشن چہرہ عوام کے سامنے آتا ہے۔ اس کتاب میں سارے صدا بہارکالم ایسے لگتے ہیں جیسے ابھی ابھی واقعہ پذیر ہوئے ہیں۔ان کی تحریریں قاری کی زندگی بدل سکتی ہے۔پہلے باب میں سارے کالم سبق آموز ہیں۔ اگر ان تحریروں سے کوئی سبق حاصل کرنا چائے تو فرد اور معاشرے میں نکھار آسکتا ہے۔دوسرے باب میں کتابوں کے متعلق کالم تفصیل سے لکھ کرقاری میں زوق مطالعہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس باب میں عامر خاکوانی کے ایک کالم کا عنوان ہی ” کس کتاب نے زندگی بدلی” ہے یہ ایک مثبت قدم ہے۔ مثالوں سے سمجھا سمجھا کر مطالعے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کالم برائے کالم ہی نہیں بلکہ اپنے کالموں میں کتابوں سے لگائو، محبت، کچھ سیکھنے اور کتابوں کو محفوظ رکھنے کی بھی بات کی ہے۔تیرے باب میں اپنے ایک کالم ”اپنی بیٹی کے نام خط” میں بیٹی کو نصیحت کرتے ہیں ۔
بیٹی! عورت عورت ہوتی ہے اور مرد مرد ہوتا ہے ۔کبھی بھی مرد بننے کی کوشش نہیں کرنا۔ جو کوئی بھی فطرت کے مخالف چلتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے۔اللہ نے عورت کو عظمت عطا کی ہے۔ بیٹی تمھارے لیے رسولۖ اللہ کی بیٹی بی بی فاطمی اور رسولۖ اللہ کی بیوی، اماں عائشہ صدیقہ آئیڈیل ہیں۔ ہم نے کل ہی مغرب زدہ خواتین جو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر گذشہ مارچ اور اب آنے والے ٨ مارچ کواحتجاج کرنے کاپروگرام کی تیاریاں کر رہی ہیں،جو پاکستانی معاشرے کو ہمارا جسم ہماری مرضی کی طرف لے جانا چاہتیں ہیں،پر سخت گرفت کی ہے اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی انتظامیہ، دینی سیاسی جماعتوں اور اسلام پسند حلقوں کو آئین کے خلاف اور غیر اسلامی اقدام کوابھی سے روکنے کی درخواست کی ہے۔ میں نے کالم تحریر کر اخبارات کو اشاعت کے لیے ای میل کیا ہے تو معلوم ہوا کہ مغرب زدہ خواتین کی اس ریلی کے خلاف جماعت اسلامی کی خواتین ونگ نے اسلام سے محبت اور اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے عزم کے لیے ایک بڑی ریلی کا اعلان کر دیا ہے۔
اس کتاب کے ایک باب میں عامر خاکوانی کو اپنی بیٹی کے نام اس خط کو پڑھ کر بے حد خوش ہوا۔ عامر خاکوانی اسلام سے محبت کرنے والا ایک نیک سیرت نڈر صحافی اور کالم نگار ہے۔اسی حصہ میں قربانی کاگوشست،ماں جیسی محبت، شیر جیسی آنکھ اور آئین برائے گھریلو امور پر کالموں میں عامر خاکوانی نے قاری کی اصلح اور اسلام سے محبت کا ثبوت پیش کیا ہے۔اگلے باب میں حقیقی تصوف اور روحانیت پر کالموں روشنی ڈالی ہے۔ایک باب میں آخری چٹان اور ارطغرل کا ذکر اپنے کالم میں چھیڑ کو اپنے اسلامی ذوق مطالعہ سے بھی قاری کو روشناس کرایا ہے۔ ایک کالم نگار، جس نے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے پنجابیوں کو کوفی تک لکھ ڈالا۔ اس کی اس نازیبا حرکت پر گرفت کرتے ہوئے پنجاب کے ہیروں اور قربانی دینے والوں کا ایک کالم میں تفصیلی ذکر کر کے اس کالم نگار کا منہ بند کیا۔معلومات والے باب میں ٹونی بُزن سے ملاقات پر کالم میں ،قاری تک معلومات پہنچانے کا کام بھی کیا۔ آخری باب میں خاندان اور اولاد کی تربیت پر سیر حاصل بحث کر کے قاری کو اپنے بچوں کی تربیت پر راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ہمارے نذدیک پوری کتاب ”زنگار نامہ” مطالعہ کے لیے مفید ہے۔