اللہ کے نام پہ دے، خیر ہووے، اللہ بوتا دیوے، اللہ تجھے زیادہ دے یہ الفاظ ہمیں گھر، گلی محلے، بازار، گاڑی، دفتر، دوکان، تھانہ، کچہری سے لے کر مراکز صحت پر سننے کو ہر وقت ملتے ہیں۔ لیکن کل صبح ایک انوکھا واقع دیکھنے کو ملا، صبح سویرے ہی بچوں کے اصرار پر ناشتے کے لئے ڈبل روٹی اور انڈے خریدنے محلے کے جنرل سٹور پر پہنچاتو جنرل سٹور والا ابھی سٹور کے تالے کھول رہا تھا میں ایک طرف کھڑا ہو کر سٹور کھلنے کاا نتظار کر رہا تھا کہ اُتنے میں ایک گداگر تشریف لے آیا میں نے حسب توفیق اُسے کچھ پیسے دے دیئے، پیسے لے کر گدا گردکان دار کی طرف متوجہ ہوکر بولا اللہ خیر کرے، اللہ تجھے زیادہ دے۔ دکان دار بڑی خوش مزاجی سے بولا اللہ تعالیٰ کی بڑی خیر ہے اور اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اتنا دے رکھا ہے کہ اب زیادہ کی تمنا نہیں رہی تم جائو اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اتنا ہی اعتبار ہے کہ تیرے کہنے سے وہ دوسروں کو نوازتا ہے تو پھر اپنے لئے بھی اُسی اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائو، کیونکہ جو مالک عطا کرتا ہے۔
جس کے سوا کوئی اور عطا کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا وہ اپنے بندوں کو کسی غیر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے سختی سے منع کرتا ہے۔ اگر تجھے اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا یقین ہے تو پھر اُس کی بارگاہ سے مانگ۔ جااللہ تیری بھی خیر کرے اور تجھے بھی زیادہ دے۔ عام طور پر لوگ گداگروں پر غصہ ہوجاتے ہیں لیکن دکان دار نے سارا لیکچر بڑی ہی خوش مزاجی سے دیا اور گداگر بھی خاموشی سے سن کر آگے بڑھ گیا۔ میں نے دکان دار سے کہا بھائی کیوں ان مانگنے والوں سے اُلجھتے ہیں روپیہ دو روپے دے دیا کریں۔ دکان دار بولا بھائی اب اُس کو کیا بتائوں کے دن بھر جتنا کماتے ہیں اُتنے میں تو گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے اور اُس پر کل 21 ہزار روپے بجلی کا بل آگیا ہے۔ پریشان ہوں کہ یہ بل کہاں سے ادا کروں گا؟ دکان میں اتنا سامان نہیں ہے کہ 21 ہزار روپے نکالنے پر بھی چلتی رہے اور کوئی آسرا بھی نظر نہیں آتا۔
ان مانگنے والوں کو کیا پتا کہ سفید پوش کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ کے سامنے یہ گداگر سو، پچاس کما چکا ہے جبکہ میں تو ابھی دکان کھول رہا ہوں، ابھی ایک روپے کا بھی کام نہیں کیااس کو کہاں سے پانچ دس دے دوں ؟ رنجیدہ لہجے میں بولا بھائی میں تو سوچ رہا ہوں کہ میں بھی گداگر بن جائوں کم از کم دکان کا کرایہ، بجلی و گیس کے بل ادا کرنے سے تو جان چھوٹ جائے گی۔ ان گداگروں کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا امتیاز بھائی بس کمائی ہی کمائی ہوتی ہے۔ آپ یقین کریں ہمارے ملک میں اس وقت گداگری بہت بڑا کاروبار ہے۔ دکان دار نے چونکا دینے والا انکشاف کیا کہنے لگا میرے ایک جاننے والے نے ایک سال پہلے اپنا گھر بیچ کر ایک لاکھ روپے کے 2 چوہے (چھوٹے سر اور منہ والے دبلے پتلے انسان) خریدے اور باپ بیٹا اُن کو لئے مانگنے نکل پڑے آج تین، تین کنال کے دو گھر گاڑی، بینک بیلنس اور ضروریات زندگی کی ہر چیز خرید کر اپنے محلے کی امیر ترین شخصیت بن چکا ہے۔
Jewelery
اس کے علاوہ اپنے کاروبارکو وسعت دینے کے لئے مزید چار چوہے خرید کر اُن کے ساتھ مانگنے کے لئے ملازم بھی رکھ لئے ہیں۔ جبکہ میں اپنی بیوی کے زیور بھی بیچ کر دکان میں سامان ڈال چکا ہوں لیکن پھر بھی کاروبار کا کوئی حال نہیں ہے۔ میں انڈے اور ڈبل روٹی تھامے چپکے سے گھر کی طرف چل دیا لیکن میرا ذہن وہیں اٹکا رہا ابھی تک میرے کانوں میں گداگر اور دکان دار کے فقرے گونج رہے ہیں۔ ہمارے ہاں گداگری اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر قدم پر ایک دو گداگر مرد، عورتیں، بچے اور خواجہ سرا پائے جاتے ہیں۔ سفید پوش طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے۔ تھوڑے پیسوں سے شروع ہونے والے تمام کاروبار تباہی کا شکار ہیں اور زیادہ پیسے سفید وں کے پاس ہیں نہیں۔ بھیک بھی نہیں مانگ سکتے اور مزدوری سے آنے والی آمدنی سے کاروبار زندگی نہیں چلتا۔ انہیں سوچوں میں گم تھا کہ میرے اُستاد محترم مشتاق احمد سلطانی صاحب کا فون آ گیا، وہ ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش لہجے میں بات کر رہے تھے۔
سلام دعا کے بعد انہوں نے میرا حال پوچھا تو میں نے دکان دار اور گداگر کے درمیاں ہونے والی گفتگو کا سارا واقع بیان کر دیا۔ اُستاد محترم بولے تو تم کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ میں نے کہا سر جی میں بھی تو اسی ملک کا شہری ہوں آج دکان دارحالات کی خرابی کی وجہ سے پریشان ہے تو کل مجھے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مشتاق صاحب کہنے لگے ارے بھائی یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کائنات میں جہاں جہاں انسان بستے ہیں وہاں وہاں پریشانی کاعالم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا اور اُس کا شکر ادا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ امتیاز اس دنیا میں وہی انسان خوش ہے جو اپنے مالک کا شکر ادا کر رہا ہے باقی سب کہ سب پریشان ہیں چاہے کسی غریب کو دیکھ لو چاہے دنیا کے سب سے امیر کو دیکھ لو۔ شاعر نے ساری حقیت بیان کرتے ہوئے کیا خوب بات کہی ہے کہ ” کوئی تو تمنائے ز ر، و، مال میں خوش ہے اور کوئی تماشائے خدوخال میں خوش ہے پرہم سے پوچھو تو نہیں کوئی بھی خوش حال خوش حال وہی ہے جو ہر حال میں خوش ہے اُستاد محترم کا فون بند ہوا ہی تھا کہ میرا بچپن کا دوست رمضان ملک آ گیا۔
رمضان ملک کا شوق تھا کہ وہ فوجی بنتا لیکن قسمت نے ٹریفک وارڈن بنا دیا اور آج کل وہ لاہور میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ حال احوال پوچھنے کے بعد بولا آج کل کون سا موضوع زیر قلم ہے؟میں نے کہا آج تو گداگری کے موضوع پر لکھنے کو دل کررہا ہے ۔رمضان بولا یار گداگر تو آج کے شہنشاہ ہیں، ابھی کچھ دن پہلے میں گلبرگ لاہور کی ایک سڑک پر ٹریفک کنٹرول کررہا تھا کہ ایک گداگر وہاں بھیک مانگنے چلا آیا، جب میں نے اُسے وہاں سے جانے کا کہا تو وہ بڑے شوخ انداز میں بولا صاحب جی 2 گھنٹے کام کرلینے دو 1 ہزار روپے آپ کو بھی دوں گا۔ میں اُس گداگر کی بات سن کر بہت حیران ہوا کہ صرف 2 گھنٹے بھیک مانگ کر وہ مجھے بھی ہزار روپے کی رشوت دینے کو تیار ہے۔
میں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ اُسے وہاں 2 گھنٹے بھیک مانگ کر1 ہزار سے زیادہ کمانے کی اُمید تھی؟ رمضان، یقینا، لیکن میں نے اُسے وہاں بھیک مانگنے سے منع کردیا جس پر وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ کوئی بات نہیں میں تو کہیں اور بھیک مانگ لو گا لیکن آپ کا ہزار روپے کا نقصان ہوگیا ہے۔ میں جو پہلے ہی حیرت میں ڈوبا بیٹھا تھا رمضان کی بات سن کر اور بھی پریشان ہو گیا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ یہ کیسا معاشرہ ہے جو اللہ کے نام پر بھیک تو دیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینے کی بجائے دینا ہی نہیں چاہتا؟ جس ملک میں مزدور کو دن بھر مزدوری کرنے پر صرف 300 روپے ملتے ہیں اُسی ملک میں گداگر صرف 2 گھنٹے بھیک مانگ کر ایک ہزار سے زیادہ کما لیتا ہے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com. 03154174470