زندگی آزادی ہے، اور آزادی زندگی ہے، ماضی سرمایہ ہے، اور حال انمول اثاثہ ہے، اور اِسی طرح مستقبل ایک ایسا خواب ہے، جس کی تعبیر زندگی و آزادی اور ماضی و حال کے بغیر کبھی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے، اِنسانی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ ہر زمانے میں دنیاکی جن اقوام نے عزم و استقلال پر قائم رہ کر زندگی اور آزادی کی قدر اور تعریف کو یاد رکھاساری دنیا میں انہوں نے ہی اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں اور جن قوموں نے اِن کی قدر نہ کی وہ ہمیشہ پستی اور زوال کا ہی شکار رہی ہیں۔
موجودہ حالات میں ہمیں اپنا محاسبہ خود کرنا ہو گا کہ ہم کس زمرے میں آتے ہیں..؟ کیا ہم نے عزم و استقلال اور زندگی اور آزادی کا معنی اور مفہوم اس طرح سمجھ لیا ہے جن پر قائم رہ کر اقوامِ عالم نے خود کو منوایا اور وہ اپنی کارکردگی اور اپنے کارناموں سے آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ بنا، یا آج تک ہمارا شمار ان اقوام میں ہی ہوتا ہے، جو زندگی اور آزادی کا صحیح معنی اور مفہوم سمجھے بغیر جنگل میں رہنے والے جانوروں کی طرح بس خود کو کھینچے جا رہے ہیں۔
یعنی جیسے جنگل میں رہنے والے جانور جن میں چھوٹے بڑے، خونخوار اور اِسی طرح اِن میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کا تعلق خونخواری اور چیڑ پھاڑ سے نہیں ہوتا ہے مگر ہوتے تو یہ بھی جانور ہی ہیں ناں…کبھی یہ ڈرتے ڈرتے اپنے سے چھوڑٹے جانور کا شکار کرکے کسی کو اپنی خوراک بناتے ہیں تو کبھی کوئی طاقتور بڑا خونخوار درندہ اِن کمزور جانوروں کو بھی ہڑپ کر جاتا ہے، یکدم ایسے ہی اِن دنوں ہمارے معاشرے میں بھی یہی جنگل کا قانون رائج ہو چکا ہے۔
Poor
جس میں طاقتور غریبوں مسکینوں، مفلسیوں، لاچاروں، اور کمزوروں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاکر اِنہیں کہیں ستاتو کہیں مار رہاہے، ہمارے معاشرے میں اِس بے راہ روی اور جنگل کے قانون کے رائج ہونے کی ایک بڑی وجہ تو یہ سمجھ آتی ہے کہ ہم میں شائد یہ حس اور سمجھ ختم ہو گئی ہے کہ ہم انسان ہیں اور اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتے ہیں، تب ہی ہم نے خود کو جانوروں کے ماحول میں ڈھال لیا ہے، اور اِن کا ہی قانون اپنے معاشرے میں رائج کر رکھا ہے، اور ہم اِن ہی جیسی زندگی گزارنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں، آج ہمارا یہی فخر ہماری تباہی اور برباد کا باعث بن چکا ہے۔
حالانکہ اب ہم ایسے بھی برے نہیں ہیں کہ ہم اپنے پرکھوں کے قابلِ تعریف کارناموں اور اِن کے ماضی کو ہی بھول جائیں اور گزشتہ کئی دہائیوں میں خود سے سرزدہونے والی سنگین غلطیوں سے سبق بھی نہ سیکھ سکیں،بس ذرااِن دنوں ہم اغیار کے بہکاوے میں آکر کچھ ایسی مخفی سرگرمیوں میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ہمیں وقت اورفرصت ہی نہیں مل رہی ہے کہ ہم اپنے ماضی کو کھنکھال سکیں اور اِس میں کی گئیں غلطیوں کو یاد کر کے اپنی اصلاح کریں، میں اپنے ہی ہاتھوں اپنے ملک اور اِس کے صوبوں اور شہروں میں جاری شورش سے مایوس نہیں ہوں۔
آج بھی اتناکچھ ہوجانے کے بعد بھی میں اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے ہرگزبھی ناامید نہیں ہوا ہوں، مجھے یقین ہے کہ جس دن اور جس لمحے بھی ہمیںاپنے پرکھوں کا اوجِ ثریا والا سنہیرا ماضی یاد آئے گا تو ہم اِسے اپنے کلیجے سے لگا کرخود کو ایسا سنبھال لیں گے کہ دنیا ہماری اِس صلاحیت پر دنگ رہ جائے گی، اور سوچنے لگے گی کہ کیا یہ وہی قوم ہے جووقت بے وقت ذرا ذرا سی بات پر لڑ جایا کرتی تھی، اور اپنے ہی علاقوں، بازاروں، کھیت و کھلیانوں، درس گاہوں کو آگ لگا دیا کرتی تھی اور اپنے ہی لوگوں کو فرقہ واریت، لسانیت، تعصبیت اور مذہب و ملت میں بانٹ کر اِنہیں گولیوں اور بموں سے بھون کر قبر کی آغوش میں دھکیل دیا کرتی تھی۔
Welfare
اب ایسے میںآپ بھی میری طرح اِس حقیقت کے قائل ہوں یا یہ نہیں جانتے تو میں بتاتا چلوں کہ دنیا میں جن لوگوں کے ذہنوں میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اچھے اور نیک خیالات آباد ہوتے ہیں وہ کبھی بھی دنیامیں تنہا نہیں ہوتے ہیں، آج بھی میرے اِس پر آشوب معاشرے کا کوئی انسان بشرطیکہ اچھا اور نیک بننا چاہتا ہے تو اِس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ خود کو اِس سانچے میں نہ ڈھال سکے، بس اِس کے لئے اِسے اتنا ہی کرنا ہوگا کہ وہ اپنے خیالات کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے بدلے تو اِس طرح اِس کی اپنی زندگی بھی بہتربن سکے گی۔
اِس کی آخرت بھی سنور جائے گی ،جس کے لئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ جس اِنسان کے دماغ میں اچھے خیالات آئیں وہ کوشش کرے کے ترنت اِنہیں عملی جامہ بھی پہنائے محض اچھے خیالات سے کچھ نہیں بنتا ہے، اِس کے لئے اسے انفرادی اور اجتماعی کوششیں بھی کرنی چاہئے۔ کارنیگی کا یہ خیال ہے کہاِس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ خیالات ہی کو اِنسان کا نام دیا جاتا ہے، برے خیالات کا حامل برا اِنسان اور نیک خیالات کا حامل نیک اِنسان کہلاتا ہی اور اِسی طرح الیگزنڈر ڈوما کا یہ کہنا ہے کہ جس اِنسان کے خیالات جتنے بلند ہوں گے وہ اِسی قدر ایمان دار، سچا، ہوشیار اور باہمت ہو جائے گا۔
اِس کا لازمی نتیجہ یہ بھی برآمد ہو گا کہ اِس شخص کا ہر قول وفعل قابلِ یقین اور قابلِ تعریف ہو جائے گا اور یہی ایمانداری، سچائی، ہوشیاری اور بلند ہمتی اِسے کامیابی کی سب سے بڑی منزل پر پہنچا دے گی اور اِسی کے ساتھ ہی اب آخر میں، میں اپنے قارئین حضرات کے لئے اِن کے سوچنے اور سمجھے کے لئے جتنے نکات چھوڑے جا رہا ہوں وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے دماغ سے اتنا ضرور سوچیں کہ آج اگر ہم واقعی صحیح معنوں میں اپنے اعمال اور خیالات ٹھیک کرلیں تو ہم بے شمار اپنی ہی پیدا کردہ برائیوں کو ختم کرسکتے ہیں اورہم دنیاکی ایک ایسی مثالی قوم بن کر ابھر کر سکتے ہیں جس سے متعلق شاعر کہتا ہے کہ:
قوم کی تاریخ بنتی ہے فقط افعال سے آدمی پاتا ہے جنت نامہِ اعمال سے
ہرقدم پر کامرانی چومتی ہے ان کے قدم کام لیتی ہیں جو قومیں عزم واستقلال سے