امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ کی دوسری اہم ترین عہدے دار وینڈی شرمین پاکستان کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ اس دورے کے مقصد اور اہمیت کے بارے میں مختلف حلقوں میں بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔
امریکا کی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف سے ملاقاتیں کی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے اور خطے میں امن کے قیام کے لیے امریکہ کے ساتھ وسیع، طویل المدتی اور مستحکم تعلقات استوار کئے جائیں۔ شاہ محمود قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی فائدے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مناسب بات چیت ضروری ہے۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ طالبان کی جگہ افغانستان میں کوئی اور گروہ آئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، “ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ اور دنیا طالبان کو تنہا نہ چھوڑے بلکہ انہیں انسانی ہمدری کی بنیاد پر مدد فراہم کی جائے اور مسائل پر ان سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے، طالبان کو تنہا چھوڑنے کی صورت میں پوست کی کاشت اور دہشت گرد گروہوں کے اضافے سمیت دیگر مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔”
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ افغانستان کے نو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اثاثوں کو بھی امریکہ کی طرف سے غیر منجمد کیا جانا ضروری ہے اور ایسا کرنے سے جنگ زدہ ملک کو معاشی بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ، “افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے بڑھنے کی صورت میں ، امریکہ ہوائی حملے یا ڈرون استعمال کرے گا جس کے لیے اسے پاکستان کی فضائی حدود کی ضرورت ہوگی۔ چنانچہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اسے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے۔‘‘
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 22 سینیٹرز کی قرارداد کے بعد یہ دورہ بہت اہم ہو گیا ہے اور امریکہ پاکستان کے ساتھ سختی سے پیش آنے والا ہے۔ ایریا اسٹڈی سینٹر، پشاور یونیورسٹی کے سابق پروفیسر سرفراز خان نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا ، “امریکہ اس بات سے لاتعلق نہیں ہوسکتا کہ افغانستان میں کیا ہورہا ہے۔ آنے والے وقت میں ہوسکتا ہے کہ وہ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف فضائی طاقت کا استعمال یا فضائی حملے کرنا چاہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہ واضح کردیں کہ اگر اسلام آباد بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مالی مدد چاہتا ہے تو اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کے امریکی مطالبے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ”
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر طلعت اے وزرات ڈاکٹر کہتی ہیں کہ وینڈی شرمین سخت مطالبات کے ساتھ آئی ہیں.انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “امریکہ ہوائی اڈے چاہتا ہے جسے پاکستان پہلے ہی مسترد کر چکا ہے، اب واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسلام آباد اسے کم از کم ایک ایئر کوریڈور کی پیشکش کرے جسے امریکہ آئی ایس کے اور افغان طالبان کے خلاف استعمال کر سکے۔‘‘
ڈاکٹر طلعت وزارت نے کہا کہ پاکستان سے اس طرح کی اجازت افغان طالبان کو مشتعل کرنے کے علاوہ چین اور روس کو بھی ناراض کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر طلعت کا کہنا ہے کہ یہ دورہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ اڈے کے لیے پاکستان پر مزید دباؤ ڈالا جا سکے، “لیکن سوال یہ ہے کہ روس اور کچھ وسطی ایشیائی ریاستوں نے بھی واشنگٹن کو فوجی اڈوں کی پیشکش کی ہے لیکن امریکہ اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے سے گریزاں ہے۔ امریکہ اس بات پر کیوں قائم ہے کہ وہ صرف پاکستان سے اڈے چاہتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔”