ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایسے وقت میں جب کہ بین الاقوامی سطح پر بالخصوص یورپی ممالک کی نظریں ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزیوں پر لگی ہوئی ہیں ،،، ایران کے رہبر اعلی علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ مغرب کے ساتھ مصالحت سے خطے میں استحکام نہیں آئے گا۔
اس موقف کے باوجود خامنہ ای نے مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ حرکت میں آئیں تا کہ گذشتہ دو سال کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے امریکی پابندیوں کے ضمن میں ایران پر عائد قیود کی تمام صورتوں کو ختم کیا جا سکے۔
ایرانی ٹیلی وژن پر جمعے کے روز نشر ہونے والے بیان میں رہبر اعلی نے کہا کہ ان کے ملک کو 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں امریکا کے واپس آنے کی کوئی جلدی نہیں تاہم انہوں نے پابندیاں اٹھائے جانے پر زور دیا۔
تہران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کا تناسب بڑھانے پر تبصرہ کرتے ہوئے علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ “اگر دیگر لوگ پاسداری کریں گے تو ہم بھی پاسداری کی طرف لوٹ آئیں گے”۔
واضح رہے کہ ایرانی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے ترجمان بہروز کمالوندی نے گذشتہ روز دھمکی دی تھی کہ تہران یورینیم کی افزودگی کا تناسب 90% تک بڑھا دے گا۔ ایرانی ٹیلی وژن کو دیے گئے بیان میں کمالوندی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک بآسانی یورینیم کی افزودگی کا تناسب 20% سے اوپر لے جانے کی قدرت رکھتا ہے جو 90% تک پہنچ سکتی ہے۔
مبصرین کے نزدیک ایران اس وقت گزارنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کا وقت آنے کا انتظار کاٹ سکے۔
تاہم منتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس بات کا عندیہ دے چکی ہے کہ جوہری معاہدے میں بعض ترامیم کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کے لیے بائیڈن کے مشیر جیک سولیون یہ باور کرا چکے ہیں کہ جوہری معاہدے سے طرف واپسی سے قبل ایران کے میزائل پروگرام پر مذاکرات ہونے چاہئیں۔