تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی سنٹرل لندن کے مختلف شاپنگ مالز میں تھوڑی بہت شاپنگ اور لمبی آوارہ گردی کے بعد ہم حسبِ معمول دریائے ٹیمز کے لندن برج پر آ گئے تھے یہاں پر حسبِ معمول دنیا بھر کے سیاحوں کا سیلاب آیا ہوا تھا دنیا جہاں کے سیاح جن میں نوجوانوں کی غالب اکثریت تھی نوجوان لڑکے لڑکیا ں مختلف نشوں میں دھت دنیا مافیا سے بے خبر ایک دوسرے سے چمٹے ہو ئے تھے۔ ہم تیزی سے لندن برج کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل چل رہے تھے شام کا وقت تھا اور سردی اپنے عروج پر تھی دریائے ٹیمز کے نیم منجمد پانی سے تیرتی ہوئی ہوائووں نے فضا کو بھی نیم منجمد کر دیا تھا۔
ہم لونگ کوٹ مفلر اور گرم دستانوں اور جرسیوں سے لیس ہو کر آئے تھے لیکن اس کے باوجود یخ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسے ہی چہروں سے ٹکراتے ہڈیوں تک سردی کی لہریں دوڑ جاتیں۔ تیز سردی جو اب ہماری ہڈیوں کے گودوں تک سرایت کر چکی تھی اور چاروں طرف فحاشی اور مادر پدر آزاد جنسی حرکات سے تنگ آکر اب ہم کسی ایسے گرم گوشہ عافیت کی تلاش میں تھے جہاں ہم گرم کافی سے اپنے منجمد ہو تے جسموں کو حرارت پہنچا سکیں اور کچھ دیر آرام کر سکیں ٹھنڈی یخ ہوا کے تھپیڑوں سے بچتے بچاتے آخر کار ہمیں VEG-Sub Wayنظر آگیا ہم تقریباً دوڑتے ہو ئے اُس کی طرف لپکے اور دروازہ کھول کر اند گھس گئے۔
ہماری خوش قسمتی کہ ایک ٹیبل سے ایک جوڑا اٹھ رہا تھا لہذا موقع غنیمت جانتے ہو ئے ہم فوری طور پر دونوں کر سیوں پر قبضہ کیا ہم تین تھے دو کر سیوں پر بیٹھ گئے اور تیسرا فوری طور پر کافی لینے چلا گیا جلدی ہی وہ کافی کے گرما گرم بھاپ اٹھتے خوشبو سے لبریز مگ لے کر آیا اور ہمارے ہاتھوں میں تھما دئیے اور ہماری choiceپوچھ کر بر گر بنوانے چلا گیا۔ میں نے فوری طور پر گرما گرم کافی کا بڑا سا گھونٹ اپنے حلق سے اتا را دو تین بڑے برے شیریں تلخ اور گرم گھونٹوں کے بعد جلد ہی میرے جسم کو حرارت ملنا شروع ہو ئی تو میں اپنے سامنے موجود میزبان سے مخاطب ہوا کہ لندن برج پر فحاشی اور بے شرمی کا سیلاب آیا ہوا تھا کوئی بھی مہذب اور غیرت مند انسان اپنی فیملی کے ساتھ آنے والی غلطی نہیں کر سکتا پتہ نہیں یہ انسان ہیں یا جا نور جن پر ہر وقت جنس سوار رہتی ہے۔
London Bridge
ہم دونوں اِس topicپر بات کر رہے تھے کہ اچانک میں نے دیکھا میرے سامنے دو ایشیائی نوجوان بیٹھے ہماری گفتگو کو سن رہے تھے دونوں نوجوان کے ہا تھ میں بڑے بڑے برگر تھے جن کی اٹالین ڈبل روٹی اور ڈبل روٹی کے درمیان چکن اور دوسرے میٹریل کو وہ وقفے وقفے سے اپنے نوکیلے اور جوان دانتوں سے بے دردی سے اُدھیڑ رہے تھے ۔ ہم دونوں مغرب کی مادر پدر آزاد سوسائٹی پر جو تنقیدی گفتگو کر رہے تھے وہ شاید اُن کی حساس طبیعت کو نا گوار گز رہی تھی وہ دونوں قدرے ناراضگی اور غصے سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے ۔ جب میری نظریں اُن دونوں نوجوانوں کی نظروں سے ٹکرائیں تو میں نے اخلاقاًاُن کی طرف مسکراہٹ کا نذرانہ اچھالا میری مسکراہٹ اور اپنائیت بھرے رویے سے دونوں نے اپنی کرسیاں گھسیٹی اور ہماری ٹیبل کے پاس آگئے ۔ سلام اور تعارفی کلمات کے بعد پتہ چلا کہ دونوں پاکستان سے یہاں پڑھنے آئے ہوئے ہیں ہمار ی گفتگو کے بعد اُنہیں شک گزرا کہ ہم بھی پاکستانی ہیں تو وہ ہماری طرف آگئے اب اُن میں سے ایک بولا سر میں آپ سے کھل کر بات کر نا چاہتا ہوں آپ غصہ تو نہیں کریں گے نا میرے ہا ں کے اشارے کے بعد وہ سٹارٹ ہو گیا۔
سر آپ یہاں کی آزادی اور کلچر پر جو تنقید کر رہے تھے وہ بلکل غلط ہیں یہ مغرب ہے جس نے پوری دنیا کو آزادی سے آشنا کیا برصغیر اور غیر پسماندہ ممالک اور اسلامی ممالک ابھی نشو ونما اور ترقی کے مراحل سے گزر رہے ہیں ہمارے مذہب نے ہماری ترقی کو روک رکھا ہے ہماری جہالت اور غیر تر قی یا فتہ اقدار اور مذہب سے چمٹے رہنا ہی ہماری ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ مغرب نے کلیسا اور ریاست کو الگ کیا تو وہ ترقی یا فتہ بن گئے ہم ابھی تک ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں پھر وہ فرانسیسی مفکر روسو کا جملہ بار بار دہرا رہا تھا جو اُس نے ایک مشہور کتاب سوشل کنٹریکٹ میں ١٧٥٠ء میں کہا کہ ۔ انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔اُس کا یہ جملہ سن کر مجھے پاکستان کے بے شمار ارباب ِ دانش قلم کار ادیب اور نام نہاد روشن خیال لوگ یا د آگئے جو عرصہ دراز سے اِس جملے کی ہر جگہ جگالی کر تے نظر آتے ہیں اُن کے لیے یہ ایک الہامی کلام بن چکا ہے۔نا جانے یہ جملہ کتنی بار کہاں کہاں نقل کیا گیا۔
Pakistan
آپ اقوالِ زریں کی کوئی کتاب اٹھا لیں سرِفہرست یہی جملہ آپ کو ملے گا کتنی تنظیموں نے اِس جملے کو اپنا موٹو قرار دیا پتہ نہیں کتنی تحریروں کا آغاز اِس جملے سے ہوا ہے پاکستان اور پوری دنیا کے ارباب ِ دانش اور نام نہاد روشن خیال بار بار اِس جملے کو دہراتے اور وجد میں سر دُھنتے ہیں کہ دنیا میں اِس جیسا جملہ کبھی کسی نے نہیں کہا ۔ آج پوری دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کا چرچا ہے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف دو تین صدیاں پہلے مغرب اور پوری دنیا سوائے اسلام کے جہالت کے تاریک دور سے گزر رہی تھی۔
ہمارے تمام اہلِ علم اور دانشور انسانی حقوق کا شعور اور انسان کی بیداری اور پھر انسانی حقوق کی دستاویزات ان کی حفاظت اور نگہبانی کا سارا خراج مغرب کو دیتے ہیں ۔اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مغرب کہ بیداری یا شعور سے پہلے اِس کرہ ارض پر نہ تو کوئی انسان رہتا تھا اور نہ ہی حضرت ِ انسان کے حقوق تھے ہمارے اہلِ علم جہاں بھی بات کرتے ہیں تو روسو کارل مارکس ہیگل کانٹ نئشے رسکن سپنگلر فرایڈ رسل شیکسئپر مارلوکے علاوہ دنیا میں کوئی اور انسان یا فلسفی نظر ہی نہیں آتا ۔ ہمارے دانشوروں کو بھی خیال نہیں آیا کہ وہ مغربی دانشوروں کے بھاری بھرکم نام لینے کی بجائے کبھی اگر سیرت نبوی ۖ اور قرآن مجید کا مطالعہ ہی کر لیا کریں تو وہ سب کچھ آج ہمارے شعور اور دامنِ فکر میں ہوتا جو بھیک کے طور پر ہم مغرب سے مانگتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 14صدیوں سے عملاً اسلام اور اہل اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے نہ صرف علم بردار ہیں بلکہ محافظ بھی رہے ہیں۔ لیکن ظلم کی بات یہ ہے آج انسانی حقوق کی تمام اجارہ داری مغرب کے نام لکھی جا چکی ہے اور مغرب کے قول و فعل کا تضاد دیکھیں کہ مغرب اِس مسئلے کو ہر قوم اور ملک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر تا ہے جہاں اس کے سیاسی اور معاشی مفادات خطرے میں ہوں اگر اُس کے مفادات نہ ہوں تو کہاں کے حقوق راوی ہر جگہ امن کا راگ الاپتا ہے عراق ہو یا افغانستان کشمیر ہو یا بو سینا ہر جگہ مغرب کا نیا چہرہ سامنے آتا ہے۔(جاری ہے۔)
Prof Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956