ترکی (جیوڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ مغربی ممالک نے پناہ گزینوں کے بارے میں نسلی پالیسی اختیار کر رکھی ہے وہ انسانیت کے لیے شرمناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام میں سن 2011 سے اب تک چھ لاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ قاتل اسد کو ان کے عہدے پر فائض رکھنے کے عمل کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔
صدر ایردوان جو گیارویں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کی غرض سے عوامی جمہوریہ چین میں مقیم ہیں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔
انہوں نے کہا کہ شام میں اس سے پہلے بھی ہم نے بفر زون قائم کرنے کے بارے میں تجویز پیش کی تھی لیکن کسی بھی ملک نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے اور اب نئے ممالک کے شامی حدود کے اندر داخل ہونے سے صورت ِ حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک پناہ گزینوں کے بارے میں امتحان میں کامیاب نہیں رہے ہیں جبکہ ترکی نے تین ملین عراقی اور شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیتے ہوئے 25 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی نت نئے چہروں میں دنیا بھر کے لیے خطرہ تشکیل دے رہی ہے ، ترکی میں 15 جولائی کو پیش آنے والی فوجی بغاوت کی کوشش ، ترک مسلح افراد کے اندر سرایت کرنے والے ایک گروپ کی جانب سے کی گئی ایک غدارانہ حرکت ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک نئی شکل ہے۔
اس رات ٹیلی ویژن چینلز پر صدا بند ہوتے ہوئے میدانوں اور گلی کوچوں میں نکلنے کی اپیل کیےجانے والے عوام نے دہشت گردوں کے پاس موجود ایف۔ 16 اور ٹینکوں سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس اپیل کا مثبت میں جواب دینے کی یاد دہانی کراتے ہوئے جناب ایردوان نے کہا کہ اسے جمہوریت کے نام پر جدوجہد سے منسوب کیا جاتا ہے۔
صدر ترکی نے ان دہشت گردوں کے ما تحت ہونے والی دہشت گرد تنظیم فیتو 170 ملکوں میں فعال ہے، میں ان تمام ملکوں کو خبردار کرتا ہوں کہ اسی قسم کی فلاکت آپ کے سر پر بھی پڑ سکتی ہے۔
داعش ، PKK، پی وائے ڈی اور وائے پی جی کو علیحدہ علیحدہ تصور کرنے والی سوچ سے کنارہ کشی کی ضرورت ہونے پر بھی زور دینے والے صدر ایردوان نے بتایا کہ ” اچھے برے دہشت گرد جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اگر ان کے درمیان تفریق بازی کی جاتی ہے تو یہ بومے رینگ کی طرح گھوم گھما کر اسی ملک کو ہی نشانہ بنا دیں گے۔ ”
صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ اس تنظیم سے جنگ میں ترکی پر عزم ہے جس کا ہدف 24 اگست سے شام میں جاری “بقائے فرات” نامی آپریشن سے ظاہر ہے اور ہمارا مقصد شام کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا نہیں ہے۔
صدر نے جی ٹوئنٹی اجلاس کے دوران عالمی طاقتوں پر یہ باور کیا کہ اس اجلاس میں شامل ترکی سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کی ترقی و خوش حالی کےلیے ضروری اقدامات اٹھائیں جائیں۔
انہوں نے کہا کہ، ترکی عالمی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں اقتصادی طاقتیں مزید ہمنوائی بخشیں۔
جناب صدرنے اس بات کو مسترد کیا کہ نعمت خداوندی کا کثیر حصہ ترقی پذیر ممالک جمع کرتے ہیں مگر اس کا اجر دینے وقت بڑی طاقتیں آنکھیں موند لیتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اجلاس کے دوران انہوں نے جتنے بھی دو طرفہ مذاکرات کیے وہ انتہائی گرم جوش اور خوشگوار ماحول میں ہوئے۔