تحریر: مسکان احزام آج کالج میں ہم نے مطالعہ پاکستان کا ایک سبق پڑھا جو کہ پاکستان کی ثقافت پر مبنی تھا۔ اس سبق میں پاکستان کے کلچر کی بہت عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہوا کہ کلچر کے یہ دلنشین رنگ صرف کتابوں کے کینوس پہ ہی بکھرے نظر آئے۔ حقیقت میں تو اس تصویر نے کوئی اور ہی رخ دکھا یا تھا جو کہ واقعی ایک بھیانک حقیقت رکھتا ہے۔اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں ،معاشرے کے اوراق کو پلٹا مگر نصاب کی کتاب میں شامل اس سبق کے سارے لفظ جھوٹے لگے۔کیونکہ جو کلچر کتابوں میں لفظوں کی صورت میں موجود ہے حقیقت میں ایسا کچھ کچھ بھی نہیں ہے۔
موجودہ کلچر کو دیکھا تو سر شرمندگی سے جھک گیا۔ذہن ڈھیروں سوالوں کی زد میں آگیا۔کبھی ہم نے غور کیا کہ کیا تھا ہمارا کلچر اورآج ہم کس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں؟ہماری تہذیب اور ورثے نے ہمیں کیا دیا تھا اورآج ہم کس ڈگر پہ چل رہے ہیں؟ کل ہمارا رہن سہن کیا تھا اور آج ہم کن طور طریقوں کو اپنا رہے ہیں؟کیا ہماری اپنی کوئی شناخت نہیں ،کوئی ثقافت نہیں کہ جس پر اس ملک کی نسل فخر کر سکے؟ کیا پہلی تہذیب ایسی تھی کہ اس ملک کے لوگوں نے اس کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی مناسب سمجھا اور اس کی جگہ مغربی ثقافت کا زہریلا پودا اگا دیا جو دن بدن تناور درخت کی شکل اختیار کیے جا رہا ہے؟کسی کے پاس بھی ان سوالوں کا جواب نہیں ہوگا کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے ورثے پر،اپنی تہذیب پر اور اپنی ثقافت پر شرمندگی محسوس کرتی ہے لیکن گمراہ کن کلچر کی اندھا دھند پیروی کو اپنے لیے باعثِ فخر محسوس کرتی ہے۔
Wedding Dance Party
ہماری مطالعہ پاکستان کی ٹیچر حمیرا نے ایک بہت اچھی بات کہی اور ہمارے لیے لمحہ فکریہ پیدا کردیا۔میم کہتے کہ پہلے ناچ گانے ہماری ثقافت کا حصہ نہیں تھے اور شریف گھرانوں میں ان چیزوں کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا مگرآج کل شادی بیاہ اور اس طرح کے دیگر مواقع پر لڑکیاں ناچ رہی ہوتی ہیں اور باپ اور بھائی بیٹھے تالیوں کی صورت میں انہیں داد پیش کر رہے ہوتے ہیں یا پھر بھائی بھی رقص میں ان کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں اور چہرے پہ تفخرانہ مسکراہٹ سجائے بیٹھے باپ نجانے کیا جتانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں؟ اگرآج کل یہ چیزیں نہ ہوں تو شادی ہی نہیں ہوتی۔
آج اتنا فرق کیوں پیدا ہوگیا؟ کہاں پہ غلطی ہورہی ہے؟ میرا کند ذہن مجھے ان سوالوں کے جواب نہیں دے پا رہا۔ اس لیے میں آپ لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ اس نسل کو کس طرف ہانکا جارہا ہے؟ کلچر کے نام پر کیا سکھایا جارہا ہے؟ اس تباہی کو روکنے میں والدین اور خاص طور پر میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں تک دیکھا جائے تو اس تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ ہی میڈیا کا ہے۔ میڈیا اگر آزاد ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
اسے ایسی چیزیں نشر کرنی چاہیں کہ واقعی لگے کہ یہ ایک اسلامی ملک کی اقدار کو فروغ دینے والا میڈیا ہے۔پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں انڈین کلچر کو کیوں دکھایا جا رہا ہے؟ اگر یہی کچھ اپنا نا تھا تو الگ وطن کس لیے حاصل کیا گیا تھا؟ کیوں اتنے لوگوں نے اپنیثقافت کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے جسموں نے توآزادی حاصل کر لی تھی مگرآج بھی ہمارے ذہن غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہم نے اس سحر کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
Indecency
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اسلامی خطوط پر کریں۔ کلچر کے نام پر بے حیائی کو اپنے بچوں سے دور رکھیں۔ بیٹیوں کو دوپٹوں کے نام پر حیا اوڑھنے کی ترغیب دیں۔ مغربی رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔اپنے بچوں کو فحاش چیزیں دکھانے سے پرہیز کریں۔اس معاملے میں ان کڑی نظر رکھیں۔ کیا خوب کہا گیا ہے کہ !
سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے اقبال مغرب کی طرف جائو گے تو ڈوب جائو گے
اسی حوالے سے بہت ہی خوبصورت سطریں میری نظروں سے گزریں کہ ایک دن چاند نے سورج سے پوچھا” تم مشرق سے نکلتے ہو تو بڑی آب و تاب میں ہوتے ہو، تمھاری کرنوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے تم خوشی سے مسکرا رہے ہو”. لیکن مغرب میں تمہیں کیا ہوتا ہے تم مرجھائے ہوئے پھول کی طرح لگتے ہو یا پریشان حال مسافر کی طرح اداس… سورج بولا” مجھے مشرق کی عادتیں اچھی لگتی ہیں، ماں باپ کا ادب بڑوں کا احترام شرم و حیا اور پردہ، اس لیے خوش ہوتا ہوں اور مسکراتا ہوں! مگر مغرب کی بے شرمی دیکھ کر ڈوب جاتا ہوں۔
Islam
چاند نے پوچھا تم مغرب کے ملکوں میں بھی تو نکلتے ہو ؟؟ سورج کہنے لگا” غور سے دیکھنا کئی کئی روز میرے چہرے پر دھند کا نقاب ہوتا ہے۔ اگر اسی طرح ہمارا سورج ّ یعنی ہمارا ملک بھی مغرب کی طرف چلتا رہا تو ایک دن یہ بھی غروب ہوجائے گا۔ہمارا نام و نشان اور رہی سہی ثقافت بھی مٹ سکتی ہے۔اسلام کے نظریات پر حاصل کیا گیا یہ وطن عزیز غیروں کے قبضے میں بھی جا سکتا ہے اور یہ مشکل بھی نہیں جب ذہن غلام بن جائیں ناں تو جسم خود بخود غلامی کی ہتھ کڑیاں لگا لیتے ہیں۔ذرا سوچیے!!۔