پیارا وطن عزیز ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے بنانے کا مقصد صرف ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف دین اسلام کے مطابق اپنے شب گزارنے کا تھا لیکن المیہ یہ ہے کہ ملک پاکستان کے بنانے کی خاطر اپنے بڑوں کی قربانیوں کے مقصد کو بھلا دیاگیا اور ایسا بھولے کہ اب جیسے صرف کتابوں کی حد تک اسلامی پاکستان کا نام رہ گیا ہے۔ تو خیر جہاں بہت سے اسلام مخالف کاموں کو ہمارے پاکستان اور پورے مسلم معاشروں میں رواج دیا جارہا ہے۔ ویسے تو پاکستان کو موجودہ حکومت ” ریاست مدینہ” سے جوڑ رہی ہے لیکن مدینہ جیسی ریاست اس وقت ہو گی جب مدینے والی سرکار دونوں جہانوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونہ سمجھتے ہوئے اسے پورے معاشرے میں نافذ نہ کر دیا جائے، بے حیائی اور اسلام مخالف کاموں پر پابندی نہ لگا دی جائے اور اسی طرح خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی نہ کی جائے۔
جب سے مغربی تہذیب وکلچرنے مشرق کی جانب رُخ کیا ہے تب سے بے ہودگی وبے حیائی، فحاشی وغیرہ کاسیلاب امڈآیا ہے، وہ مغربی معاشرہ جہاںخاندانی نظام تباہ ہوچکاہے ، مقدس رشتوںکی قدروقیمت، پرواہ اور اہمیت نہیںرہی، مغرب کی مصنوعی روشنی کی چکا چوند سے خیرہ چشم ہمارے عوام وخواص اخلاق وکردار سے تہی داماںاقوام مغرب کی تھوک چاٹنابھی اپنے لیے قابل فخر سمجھنے لگ گئے ہیں، حالانکہ عالم کفر کی یہ ایک بہت بڑی سازش ہے کہ مسلم معاشرے میں مسلم و غیر مسلم کی تمیزاور اسلامی شعائر کو ختم کر دیا جائے اوراس کے مقابلے میںاہل مغرب کی تہذیب وکلچر کو مسلم معاشرے میں عام کردیاجائے۔مغربی رسم و کلچر میں سے ایک رسم ”ویلنٹائن ڈے” کی ہے ۔جو کہ ہر سال 14فروری کا دن آتے ہی” ویلنٹائن ڈے” کے نام سے اور اسے عالمی یوم محبت کا نام دے کر الیکٹرونک میڈیااوراخبارات پہ خصوصی تشہیر اور پروگرام ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔جس کے سبب ہماری بھولی بھالی نسل نو مقصد حیات سے بے پرواہ ہو کر لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے ہوئے بے ہودگی، بے حیائی کے وہ کھیل کھیلتے ہیں کہ جس سے شیطان بھی شرماجائے۔پہلے پہل یہ بدترین وباء ایک خاص طبقے تک محدود تھی لیکن اب آہستہ آہستہ خاص وعام کی تمیز ختم ہو گئی ، ہر طبقے کا فرد اس کی زد میںآرہا ہے اور اب بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے بعض تعلیمی اداروںمیں اس بے حیائی کے کام کی باقاعدہ تعلیم بھی دی جانے لگی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے بعض تعلیمی ادارے اور ان میںتعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات مغربی تہذیب کی دلدل میںایسے گھر چکے ہیںکہ ان سے سوچنے سمجھنے کاشعور بھی ختم ہوتا نظر آرہاہے اوریورپ کی تقلید میںہر وہ کام کرنے میںخوشی محسوس کرتے ہیںجس میںبے حیائی وبے شرمی کاعنصرہوتا ہے اور پھر ان کی نقالی کرتے ہوئے نہ کوئی پریشانی ہوتی ہے اور نہ ہی ندامت ۔اب افسوس اس بات کاہوتا ہے کہ ہماری نسل نو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے اور غیروںکی تہذیب کو اپناتے ہوئے اسے اپنا شعائر سمجھنے لگی ہے،حالانکہ یہ اصول اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی قوم کااپنی تہذیب و تمدن کو ترک کر دینااور اس کے برعکس اغیار کی تہذیب وتمدن کو اپنالیناترقی نہیںکہلاتابلکہ تنزلی کی علامت ہوتی ہے۔اس طرف کوئی دھیان نہیںدیتاکہ یہ دن مناناغلط ہے اور معاشرے میںبے حیائی اوربے ہودگی پھیلاناہے۔کون نہیںجانتا کہ” ویلنٹائن ڈے” پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاداوررومانوی قسم کی محبت کااظہارکیا جاتاہے جس میںلڑکے لڑکیوںکا آزادنہ ملاپ،ایک دوسرے کوتحائف اور کارڈزکاتبادلہ ہوتاہے،یعنی غیر اخلاقی حرکات ہوتی ہیںتو پھر بعد میںنتیجہ زنااوربداخلاقی کی صورت میںنکلتاہے جس سے اس بات کاعلی الاعلان اظہار ہوتاہے کہ ہمیںمرداور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیںہے،گویاکہ اہل مغرب کی طرح ہمیںاپنی بیٹیوںسے عفت مطلوب نہیںاور اپنے نوجوانوںسے پاک دامنی درکار نہیں ہے۔
اب دیکھیں ہندوئوںنے ”ویلنٹائن ڈے” کا تہوار ہندوستان میں منانے کو اپنی ثقافت پر حملہ قراردیاہے، توذراسوچیں!ایک غیر مسلم دوسرے غیرمسلم کے تہوار کو اپنی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دے رہاہے اورمسلم معاشروں میں بعض ایسے افراد ہیںکہ والہانہ اندازمیںغیر مذہب کے تہوار کاخیر مقدم کررہے ہیں۔ مذہب کوتو چلیںچھوڑیںاگر ذاتی حوالے سے دیکھیں تو بھی ایک سنجیدہ شہری کے لیے یہ سوائے بے ہودگی کے کچھ نہیں۔ کیا کوئی غیرت منداس بات کو برداشت کرے گا کہ کسی غیرمرد کاپیغام الفت ،اس کی بیوی،بیٹی،بہن کے لیے آئے اور کسی غیر سے تحائف کاتبادلہ ہو اورمیل ملاپ ہو؟۔حقیقت بات ہے کہ یہ” ویلنٹائن ڈے” اور اس جیسے بہت سارے غیر اسلامی تہواروں کے ذریعے ہماری اسلامی روایات کو تباہ اورہماری معاشرتی اقدار کو برباد کرنے کی سازش ہورہی ہے۔
اہل مغرب اور غیر مذاہب کے تہوار منانے کے یہ کون سے طریقے ہیںاور ان کی سر پرستی کیا معنی رکھتی ہے!سینٹ ویلنٹائن ڈے کی بے معنی اور غیراخلاقی محبت کاپرچارکرنے والے اپنی تہذیب پر بدنما داغ ہیں،پاکیزہ جذبوںسے ناآشنااور گمراہیوںکے اندھیرے میںٹامک ٹوئیاںماررہے ہیں۔مسلمانوں میں بسنت اوراس جیسے دیگر ہندوانہ تہوار کے بعد عیسائی قوم کے پادری ”ویلنٹائن ڈے” کے مکروفریب پر مبنی داستان کو ہمارے درمیان رائج کرنا چاہتے ہیں۔ قوم ایسے بے ہود ہ قسم کے تہوارمنا کر آخر کن لوگوںکے عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔ باعث افسوس کہ رسول ہاشمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر غیروں کے رسوم و رواج کوفروغ دیا جا رہا ہے کہ اب مسلمان بھی اس بے حیا،بے شرم اور دوسروںکی بیٹیوںکی عزت پر ڈاکہ ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔