جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن حکومتی اہلکار اور عہدیدار حالیہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاریوں کا دفاع کر رہے ہیں تاہم انہوں نے اس امر کا اقرار کیا ہے کہ مغربی یورپی ممالک میں شدید بارشوں نے جو تباہی لائی ہے اس سے کچھ سبق سیکھنا ہوگا۔
جرمنی سمیت متعدد مغربی یورپی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والےحالیہ سیلاب اور قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا ازالہ تو شاید وقت کے ساتھ ممکن ہو تاہم اس پورے منظر نامے سے ایک سوال نے جنم لیا ہے جس کا جواب ڈھونڈنا ارباب اختیار کا کام ہے۔ کیا ان ترقی یافتہ مغربی ممالک میں آفات کا مناسب اور موثر انتباہی نظام موجود ہے؟ کیا یہ ممالک اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھے؟ جرمن حکومتی اہلکار اور عہدیدار حالیہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاریوں کا دفاع کر رہے ہیں تاہم انہوں نے اس امر کا اقرار کیا ہے کہ مغربی یورپی ممالک میں آنے والےسیلابوں سے کچھ سبق سیکھنا ہوگا۔
گزشتہ ہفتے دو مغربی جرمن صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے سیلاب کی پھیلائی ہوئی تباہ کاریوں کی تفصیلات جیسے جیسے نمایاں ہو رہی ہیں ویسے ویسے عوام میں تشویش بڑھ رہی ہے کہ آخر اس نوعیت کی ناگہانی آفات سے بچاؤ کے لیے حکومت نے کس حد تک موثر انتظامات کیے ہوئے ہیں؟ پیر 19 جولائی کو بھی مزید متاثرین کی امداد اور لاپتا افراد کی تلاش کا کام جاری ہے۔ مغربی جرمن علاقوں سے لے کر بیلجیم اور ہالینڈ میں جیسے جیسے سیلاب کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے ملبے اور گندگی کی صفائی کا چیلنج بڑھتا جا رہا ہے۔
یورپ کے تقریباً تمام ممالک میں بے شمار دریا، جھیلیں اور ندیاں پائی جاتی ہیں، بارشوں کی وجہ سے عام طور پر چھوٹے دریاؤں میں بہت تیز رفتار طغیانی آ جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے وسط میں موسم کی پیشگوئی میں تمام ذرائع سے عوام کو انتباہ کر دیا گیا تھا کہ مسلسل جاری موسلا دھار بارشیں سیلابی شکل اختیار کر سکتی ہیں تاہم انتباہی اعلان میں ممکنہ طور پر تباہ کن نقصانات کی آگہی کا عنصر شامل نہیں تھا اور یہ تاثر عوام تک نہیں پہنچ پایا۔
جرمنی کے وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائیر نے اخبار ‘بلڈ‘ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،” جیسے ہی ہم متاثرین کو فوری امداد مہیا کر دیں گے اُس کے بعد ہماری اولین ترجیح یہ ہوگی کہ ہم اس امر کی چھان بین کریں کہ آیا متاثرہ علاقوں میں نقص یا کمی رہ گئی تھی، جس کے سبب حالات قابو سے باہر ہوئے؟ اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اسے درست کرنا ہوگا۔‘‘ جرمن وزیر نے کہا ہے کہ،” یہ معاملہ کسی کی طرف انگلیاں اُٹھانے کا نہیں بلکہ مستقبل کو بہتر بنانے کا ہے۔‘‘
جرمنی کی سول پروٹیکشن ایجنسی کے سربراہ آرمن شؤئسٹر نے ٹیلی وژن چینل ZDF کو بیان دیتے ہوئے کہا،” محکمہ موسمیات کی پیشگوئی نسبتاً اچھی تھی اور جرمنی اپنے بڑے اور مرکزی دریاؤں کی طغیانی سے نمٹنے کے لیے بھی تیار تھا۔ لیکن اکثر آدھا گھنٹا پہلے تک یہ پیشگوئی ممکن نہیں ہوتی کہ کون سے علاقے سے اور پانی کی کتنی مقدار کے ساتھ سیلابی ریلا ٹکرائے گا۔‘‘ سول پروٹیکشن ایجنسی کے سربراہ نے بتایا کہ ان کی ایجنسی نے میڈیا اور Apps کے ذریعے 150 انتباہی نوٹس بھیجے تھے۔ تاہم ان کے بقول،” وہ اب تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ کن علاقوں میں سائرن سنائی دیا کن میں نہیں؟ اس بارے میں مزید تفتیش کرنا ہوگی۔‘‘
اُدھر جرمنی کے سب سے زیادہ متاثرہ مغربی صوبے رائن لینڈ پلیٹینیٹ کے وزیر داخلہ روجر لیونٹس نے اس صوبے کے سب سے زیادہ تباہی کا شکار ہونے والے گاؤں شُلڈ کے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے دورے کے بعد کہا،” ہمیں یقیناً تکنیکی بنیادی ڈھانچے کے ، بجلی وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ ایسے میں یہ ایک جھٹکا کافی تھا جس نے سب کچھ تباہ کر دیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،” مقامی حکام نے بہت جلدی اور تیز رفتاری کیساتھ اقدامات کی کوشش کی لیکن یہ چند لمحوں کی بات تھی۔ سیلاب کی شدت پانی کے ایک دھماکے کی مانند تھی۔‘‘
رائن لینڈ پلیٹینیٹ کے وزیر داخلہ نے ایک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا،” آپ بہترین تیاری اور پیشگی انتباہی نظام رکھ سکتے ہیں لیکن اگر وارننگ سسٹم کے آلات ہی تباہ ہو جائیں اور عمارتیں انہیں اپنے ساتھ بہائے لیے جائیں تو حالات بہت مشکل صورتحال اختیار کر جاتے ہیں۔‘‘