آرام و سکون کی تلاش میں نکلا انسان وحشت و گمراہی کے جنگل میں ایسا بھٹکا کہ اُسے اپنے ہی بھلے بُرے کی تمیز نہیں رہی ۔خود اپنا ہی جسم نوچتا کھاتا ہے اور کود چیخ و پکار کرتا ہے۔اپنی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی غرض سے خوب محنت کرتا ہے اور پھر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بچوں کو منشیات اور ملاوٹ جیسے زہر دیکر سسک کر جینے کے بعدموت کی وادی میں پہنچانے کا اہتمام کردیتا ہے۔ جدید دور کی مستی وچکا چوند میں کھو یا انسان بھی کتنا عجیب ہے ہر طرف معصوصیت کے بہتے آنسو، انسانیت کی بکھرتی دھجیاں، بستر مرگ پر آخری سانس لیتی اخلاقیات کی نیم بے جاں لاش ، نسوانیت کے بگڑے خدوخال، نام نہاد مردانگی کے پتلے ہر سو جلواہ گر ہیں۔
دل ہلا دینے والے لرزہ خیز واقعات ہر آنکھ کو اشکبار ہونے پر مجبور کیے دیتے ہیں۔ ہم سماجی طور پر بے حسی کی آخری انتہاکو چھونے والے سماجی رویوں کا شکار ہیں۔ انفرادی کی بجائے اجتماعی انقلاب کے دلدا دہ ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اس معاشرہ کے اکائیاںہیں جہاں دوسروں کو کمتر ثابت کرنا ہی اپنی برتری سمجھاجاتا ہے اور اس طرح خود سے کمتر کرنے کی کوشش میں ہم اجتماعی طور پر کمتر معاشرے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ شکوک و شبہات، منفی رویے، بوکھلاہٹ، ذہنی کشمکش، بے یقینی اور بے حسی کا زہر معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر چکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم احمقوں کی جنت میں زندہ ہیں اور اتنی سی بات بھی سمجھنا نہیں چاہتے کہ انقلاب یا تعمیر ی تبدیلی محض خوابوں اور آرزئوں سے نہیں آتی بلکہ فرد کو اس کے لیے اپنی ذات سے خود آغاز کرنا پڑتا ہے۔
Humanity
سب سے پہلے اپنی ذات میں تعمیری و مثبت تبدیلی اور انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے مگر عقل و خرد سے نا آشنائی کی انتہاء تویہ ہے کہ ہم انسانیت کو اتنے ٹکڑوں(ذات ، برادری، لسانی، علاقائی) میں تقسیم کرچکے کہ اب ہمیں معاشرہ میں انسانیت کی باقیات تک ملنا مشکل نظر آتا ہے اور روز بروزحالت مزید ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے ۔ہماری قوم پھر بھی خواب انقلاب کو آنکھوں میں بسائے بیٹھی ہے اور اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے کبھی اہل اقتدار، کبھی بیورو کریسی تو کبھی کسی بیرونی طاقت یا سیاسی شخصیت کو انقلاب کی ذمہ داری سونپ کر خو د کو مبرا سمجھا جاتا ہے
اس ارض پاک کے باشندے علاقائی، صوبائی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات و تفریق میں اس قدر کھو چکے کہ شعور اس بات کو ماننے سے ہی منکر ہونے لگتا ہے کہ ہم بنی نوع انسان ہیں یا کوئی فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی نوع کی کوئی مخلوق؟ افسوس ہم یہ بھول گئے کہ قانون ِ قدرت ہے کہ کائنات میں وہی چیز پلٹ کر انسان کی طرف آتی ہے جو انسان دنیا کو دیتا ہے۔ایک کہاوت ہے کہ جوبوتا ہے وہی کاٹتا ہے یا کاٹنا پڑتا ہے۔
Reality
ہم کسی کو منفی رویوں اور غصہ دے کر کیسے یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں مقابل سے مسکراہٹ ملے گی۔حقیت تو یہ ہے کہ اس معاشرتی زندگی کے امن و سکون کی تباہی کے ذمہ دار ہم خود ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی کہ ہم اس سچائی سے آشنا ہو کر اس سچائی کو اپنے ذہنوں میں محفوظ کر لیں کہ انسانیت اس کائنات کی سب سے قیمتی اور اہم اخلاقی قدر ہے اگر آج ہم نے اسے کھو دیا جو کہ ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے تو نہ صرف ہم خود خمیازہ بھگتیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے مجرم گردانے جائیں گے۔ کیونکہ ہم ہی آنے والی نسلوں کے امین ہیں سو ہمیں ہی سوچنا ہو گا کہ ہم موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے حوالے کونسی تہذیت،روایات، اخلاقیات اور اقدار منتقل کر کے جا رہے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کو فروغ دے کر آنے والی نسلوں کیلئے بہتر ماحول اور باشعور معاشرہ ترتیب دیں