تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آپ یقینا میری بات سے متفق ہوں گے کہ جب سے وطنِ عزیز پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے اُس وقت سے لے کر آج تک ہمارے حکمران اور ہم اپنے سے زیادہ غیروں کے زورِ بازوؤں پر ہی بھروسہ کرتے آئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے پیروں پر اُس طرح کھڑے نہیں ہوسکے ہیںآج جس طر ح ہم سے بعد میں آزاد ہوکر معرضِ وجودمیں آنے والی ریاستوں نے دنیابھر میں اپنی کامیابی اور کامرانی کا لوہامنوالیاہے ،آج جنہیں دنیا بھی مانتی ہے اور اِن کا احترام بھی کرتی ہے اِن کی اِس کامیابی و کامرانی کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اِنہوں نے ہمیشہ دوسروں سے زیادہ اپنے زورِ بازوؤں پر بھروسہ کیا اور آج اِنہیں اِسی اعتماداور بھروسے نے کہاں سے کہاں پہنچادیاہے کہ اِن کی قدر و اہمیت کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں۔
جبکہ ہم نے اپنے سے زیادہ دوسروں کے مشوروں اور بازوؤں پر بھروسہ کیا توآج ہماری حالت پستی زدہ اقوام سے بھی بدتر ہوگئی ہے ، ہمیں اِس حال تک پہنچانے میں غیروں کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنوں کا بھی کردار متحرک اور فعل رہاہے جبکہ ہم اَب تک نصف صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ حالتِ کسمپرسی میں گزارچکے ہیں مگرآج بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمران، سیاستد ان، بیورو کریٹس، شرافیہ اور ہمارے بہت سے (آمنے اور سامنے اور ظاہر و باطن رہنے والے) اہم اداروں کی بہت سی اہم عہدوں پر فائز شخصیات وا فراد بھی غیروں کے ہی زورِ بازوؤں پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں اور اُن ہی کے دیئے ہوئے مشوروں اور ڈکٹیشنز پر سختی سے عمل پیرا ہیں آج یوں ملک پر مسلط غیروں کے دوست ساری پاکستانی قوم کو اپنی مرضی سے ہانک رہے ہیں اور قوم کو اِس کی درست راہ سے بھٹکا کراِسے اُدھر لے جارہے ہیں اِنہیں جدھر کا کہا جا رہا ہے۔
آج میری قوم کا یہ حال ہے کہ ذہن رکھنے کے باوجود بھی دماغ کے استعمال سے قاصر ہے، پچھلے کئی ماہ سے مُلک میں جاری رہنے والے سیاسی بحرانوں پر قوم کو جہاں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئے تھیں مگرافسوس ہے کہ اِنہیں یہ بندکئے ہوئے ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِس کی خستہ اور زبو حالی اپنی اِنہی کوتاہیوں اور بدعقلی کاہی نتیجہ ہے، کہ یہ اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے مگر خداجانے کیوں…؟ آج بھی یہ باربارآزمائے ہوؤں کے پیچھے بھاگنے سے بازنہیں آ رہی ہے،اور یہ اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں ،اشرافیہ اور بہت سے ظاہر و باطن اشخاص کے دیئے ہوئے پروگراموں اور منصوبوں کے پیچھے بھوکوں کی طرح دوڑے جا رہی ہے۔
Tahir ul Qadri
آہ …آہ …!!! آج یہ پاکستانی قوم کے ساتھ کیاا ور کیسا مذاق ہے ….؟ کہ دو ماہ تک ریڈ زون میں دھرنا دے کر بیٹھنے والے راتوں رات خاموشی سے دھرنا ختم کر کے چلے گئے ہیں، کیااِس بات کا اِن سیاسی مداریوں کواحساس ہے کہ بغیر نتیجہ نکلے دھرناختم کرنے سے قوم کے جذبات اور احساسات پر کیا گزری ہو گی …؟ اور اُن انقلاب کے متوالوں کا کیا بنا ہو گا…؟؟ جو انقلاب کی تلاش میں ساری کشتیاں جلاکراور اپنے پیاروں کو چھوڑ چھاڑ کر دوماہ سے انقلابیوں کے ساتھ فائرنگ و شیلنگ اور لاٹھی، ڈنڈا کھا کر اوراسلام آباد کی گرمی و بارش کو برداشت کر کے بے یارو مددگار پڑے ہوئے تھے … !!! دھرنے کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والوں نے دھرنا ختم کرنے کا مضحکہ خیز اعلان کر کے قوم کی اُمیدوں پر اور ارمانوں پر اُوس کے ڈرمز گرادیئے ہیں۔ اَب اِس منظر میں مجھے برک کا یہ قول یاد آگیاہے اِس کا کہناہے کہ” اقوام جن کی راہنمائی چھوٹے دماغوں، چھوٹے دلوں سے ہوتی ہے اِنہیں اپنے آپ کو صدموں، آفتوںاور خاتمے کے لئے تیار رکھنا چاہئے”اور آج لگتا ہے کہ جیسے میری قوم کے لوگوں کو بھی یہ احساس شدد سے ہونے لگاہے کہ برک کا قول ہم اور ہمارے مُلک پر صادق ہونے جا رہا ہے۔
بہرحال…! آج قوم کو اپنی راہ خودہی متعین کرنے کے لئے اپنے اندر ہیجانی کیفیات ختم کرنی ہوں گیں، اور اپنی منزل کے تعین کے لئے اپنے جذبات اور کسی کے جذباتی نعروں اور تقایر کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے دل و دماغ سے مشورہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے دیس کے لئے سوچناہوگااور اِس نقطے کو اچھی طرح ذہن نشین رکھناہو گا کہ جن اقوام میں اپنے پرائے کی سازشوں اور مشوروں کو سمجھنے اور نظم و ضبط کا فقدان ہوتاہے اُن اقوام کے لئے ترقی و خوشحالی کے دن و لمحات کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتاہے جبکہ جو قومیں وقت کی قدر،اور غوروفکرکرتی ہیںاِن کی خصلت میں نظم و ضبط پیداہونالازمی ہوتاہے اوردنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ہی قومیں تحقیق وانکشافات کے میدان میں اُوجِ ثُریاتک پہنچ جاتی ہیںاور دنیامیں اپنی عظمت و احترام کے جھنڈے گاڑتی ہیں۔
آئیں عہد کریں کہ اَب ہمیں اغیار کے زورِ بازوؤں پر بھروسہ کرنا چھوڑکر اپنے بازوؤں پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ہو گا اور دنیا کو یہ بتا دینا ہو گا کہ ہم حقیقی معنوں میں ایک زندہ اور پائندہ قوم ہیں، اَب ہمیں کوئی ہمارے عزم وہمت سے بھٹکانہیں سکتاہے، اور اَب ہم اور ہمارے کسی بھی شعبے میں کوئی گلو بٹ نہیں ہو گا، جو اپنے ہی بھائیو ں، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں پر کسی کے بہکاوے میں اِنسانیت سوز مظالم کے پہاڑ نہیں توڑے گا، اَب کوئی گلو بٹ قانون کی دھجیاں بھی نہیں بکھیرے گا، اور جب قانون جاگ جائے گاتو پھر اِس کی پکڑمیں آجانے کے بعد اپنی جان بچانے کے لئے یہ نہیں کہے گاکہ میں بدمعاش نہیں ہوں،جو کیا معافی کا طلب گارہوں، جن پر میں نے ظلم کیا یقین جانو کہ ایک میرے والد اور دوسرامیرے ماموں کی طرح ہے…!!آج جو گلوبٹ یہ کہاہے ذراسوچیں کہ اُس نے بھی دوسروں کے زورِبازوؤں پر بھروسہ کرکے نہتے لوگوں پرکیاکیاظلم نہیں کئے تھے مگراَب جب یہ قانون کی پکڑمیں آگیاہے تودیکھیں یہ اپنی رہائی کے لئے کیسے کیسے جتن کررہاہے..؟آج ہم اور ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اشرافیہ کی مثال بھی گلوبٹ جیسی ہے جو دوسروں کے زورِبازوؤںپر بھروسہ کرکے مُلک اور قوم کا تو بیڑاغرق اور ستیاناس تو کرہی رہے ہیں مگر افسوس ہے کہ یہ معافی بھی نہیں مانگ رہے ہیںآہ ..آہ ..! ذراسوچیں کہ یہ کیا مذاق ہے
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم فون نمبر: 03312233463 azamazimazam@gmail.com