تحریر : شاہ بانو میر یورپ میں 9 11 کے بعد سے اسلام نے بہت مضبوطی سے جڑیں پھیلائیں ہیں خاص طور سے تارکینِ وطن کی نئی نسلیں جو یہیں پیدا ہوئیں اور یہیں پلی بڑہیں وہ اپنے والدین کی طرح سہمے ہوئے نہیں تھے وہ اپنے حقوق کا تعین کرنا جانتا ہیں اور تحفظ بھی کیونکہ وہ کسی بظاہر آزاد لیکن اسیر ملک کی پیداوار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ آزاد ملک آزاد معاشرے میں مکمل ذہنی آزادی کے ساتھ پرورش پاتے ہیں تو ابتدائی کلاسسز میں ہی ان کو پولیس اسٹشین کا نمبر ہنگامی صورتِحال کے لئے یا کروا دیا جاتا ہے۔
یہ بچے نظام کے تحت چلتے ہیں بچپن سے ہر شعبے کے لئے ادارہ کا نام جانتے ہیں اور اس ادارے پے یہ آنکھیں بند کر کے اعتمادکرتے ہیں ان کے مسائل سے متعلقہ جو حل وہ دیں گے یہ کسی اور سے لینا ہی نہیں چاہتے۔ اس کو کہتے ہیں نظام بلکہ کامیاب نظام نظام میں رشوت ستانی نہیں ہے۔ ہر محکمہ حکومت سے تنخواہ لیتا ہے اور عوام کو فری سہولیات دیتا ہے۔ ایسے نظام میں جہاں بغیر کسی لالچ کے دھونس کے اقربا پروری کے کام ہوتے ہوں اس نظام کے تحت چلنے والے جھوٹ سے منافقت سے دھوکہ سے انجان ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپ میں پلنے بڑھنے والے بچے کسی بھی شعبے میں ہوں وہ آپکو مکمل سچائی کے ساتھ اپنے اداروں کو اپنی محنت دکھاتے نظر آتے ہیں۔ اسی لئے تو ان ممالک میں ترقی کا حقیقی گراف بلند ترین سطح پے دکھائی دیتا ہے ہماری طرح محض خانہ پُری نہیں ہوتی۔
یہ بچے صاف ستھرے شفاف اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف مراحل میں اساتذہ کے زیر نگرانی زندگی کے اعلیٰ اہداف حاصل کرتے ہیںـ انہی بچوں میں سے جن کو اللہ ہدایت کے لئے ُچن لیتا ہے تو وہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دین کی طرف یکسو ہو جاتے ہیں۔ الحمد للہ پچھلی ایک دہائی سے کچھ تو والدین کا مذہب میں بڑہتا ہوا شعور اور کچھ شائد انقلاب اب یورپ سے ہی اٹھنے والا ہے تو بچوں اور بچیوں کی کثیر تعداد ہے جو اب مساجد میں اپنے تروتازہ خوشنما چہروں کے ساتھ اسلام کو سمجھتے ہوئے اور نماز کی ادائیگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ زبان کیونکہ ایک ہی ہے تو مختلف ممالک سے تعلق رکھنے کے باوجود ان بچوں کے لیے ایک ساتھ ایک جگہہ اکٹھے ہو کر قرآن کو سمجھنا سہل ہے۔ مجھے اتفاق ہوا پچھلے سال ایک مسجد جانے کا جو پاکستانیوں کی نہیں تھی خوبصورت نوجوان بچیاں گود میں شیر خوار بچوں کو لیے بیٹھی تھیں وہیں کسی سے پتہ چلا کہ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان بچیاں اور بچے آتے ہیں اور جب اسلام کی اصل تعلیم کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت اور بڑائی صرف تقویٰ سے ہے۔ تو ان بچوں کی سوچوں کا رُخ بدل جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کئی خوبرو عربی بچوں کے ساتھ میں نے افریقہ کی سیاہ فام بچیاں دیکھیں اُن لڑکیوں کی گود میں حسین و جمیل باپ سے مشابہہ بچہ ہُمک رہا تھا۔
Muslim
یہ ایک خوبصورت تجربہ تھا جو اس سے پہلے نہیں دیکھا ان بچوں کے پُرنور چہرے اور صاف شفاف گفتگو بتا رہی تھی کہ اصل اسلام کے جانشین یہی ہیں ہم نے تو جہالتوں میں فرقہ پرستیوں میں اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جبکہ یہ بھید بھاؤ سے دور صرف قرآن پاک کو مشعل راہ بنا کر اسلام کے فروغ کو زندگی کا مقصد بنا بیٹھے ایک اور دلچسپ بات کا وہاں پتہ چلا کہ ان بچوں میں کئی جوڑے ایسے ہیں کہ اسلام کو اس قدر اپنے اندر بسا چُکے کہ وہ کسی دور دراز اسلامی ملک جا بسے کہ وہاں جا کر بہتر انداز میں اپنے بچوں کی پرورش اسلامی ماحول میں کریں گے۔ جہاں حجاب پہننے پے جُرمانہ نہیں ہوگا جہاں 5 وقت اذان کی آواز کانوں میں رس گھولے گی۔ یورپ میں ہر کھانے پینے والی چیز کو خریدنے سے لے کر کھانے تک خوف سا رہتا ہے کہ اس کے اندر نجانے کونسی قسم کی کوئی حرام آمیزش موجود ہو۔ یہ بچے اپنے بچوں کو بے دھڑک حلال خوراک کھلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے بہت سے جوڑے ہر سال یہاں سے کوچ کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے تحت رہ کر زندگی کو مزید معتبر کرنا چاہتے ہیں یہ خوبصورت اندازِ فکر مجھے متاثر کر گیا۔
آج ایسے ہی ایک حجاب والی پک دیکھی تو پچھلے سال کے کچھ مناظر یاد آگئے خیال آیا کہ اگر یہاں سے کوئی نوجوان جوڑا پاکستان جیسے ملک کو اسلامی سمجھ کر وہاں سکونت اختیار کرنا چاہے اور وہاں چلا جائے تو وہ وہاں جا کر کونسا اسلام دیکھے گا نہ اب حجاب رہا نہ پردہ نشیں ہمارا ماحول نجانے کس کس قومیت اور کس کس تہذیب کے اثرات کہاں کہاں سے اپنے اندر سمو چکا۔ اب آدھے تیتر ہیں آدھے بٹیر یہ بچے اگر وہاں جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی پاکستان میں وہ بلا خوف وخطر اشیأۓ خوردو نوش خرید کر کھا سکتے ہیں تو یہ نجانے کس دیس کی بات کرتے ہیں جن چیزوں سے ہم بیرون ِ ملک محتاط رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کو گھروں کی راہ نہ دکھائیں نو دولتیے افراد کی بہتات اور تعلیم سے کوسوں دوری نے وہاں ہر ممنوعہ شے کو ہائی کلاس بیکری کا معیار قرار دے کر خوبصورت برقی قُمقُموں سے ان کے رنگ روپ کو خوب اجاگر کر کے ہر آنے جانے والے کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں امیر والدین ایسی غیر ملکی اشیاۓ کو خریدنا اپنے لئے باعثِ فخر محسوس کرتے ہیں ہم لوگ اپنا اصل اپنی سادگی کو خیر باد کہہ کر مغربی چکا چوند میں ایسے کھو چکے ہیں کہ آرائش زیبائش نمائش سب کی سب پرائی سوچوں کی عکاس ہے۔ یہی جوڑے اسلامی نظام کے تحت اگر یہاں زندگی گزارنا چاہیں گے تو انہیں چاہیے۔
ڈی چوک پے جاری پی ٹی آئی کا دھرنا ضرور دیکھیں اور پھر کسی سے پوچھیں کہ یہ لوگ 45 دن سے یہاں کیوں موجود ہیں۔ گرمی بارش آندھی طوفان سب کچھ یہیں سہہ کر مستقل مزاجی سے ڈٹے ہوئے ہیں کیوں یہ نیا پاکستان بناناچاہتے ہیں کیوں جی اس لئے کہ ان کے عقب میں موجود پارلیمنٹ کے اندر موجود وزراء اعلیٰ شخصیات ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ ہاں دھاندلی ہوئی ہے ہاں قتلِ عام ہوا ہے ہاں رشوت ستانی عام ہے ہاں ہم نظام دینے میں ناکام رہے ہیں ہاں اس ملک میں نظامِ عدل پے ہم عرصہ دراز تک حاوی رہے ہاں یہاں مسائل کا حل مذاکرات نہیں مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کے لئے ہم گلو بٹ کو لاتے ہیں لوگ بھوک سے نڈھال عوام کو نیم مردہ سیلاب ہر سال مارتا ہے اور ہم جانتے ہیں یہ ہو گا لیکن ہمارے پاس ان کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کا وقت نہیں ہے امیر امیر تر ہو رہا ہے غریب غریب تر ہو رہا ہے دولت چند ہاتھوں مین سمٹ کر رہ گئی ہے اور جو اس نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت بلند کرتا ہے اسے ہم دیوانہ کہہ کر اسکے ارادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ حکمران ذرا سوچیں کہ یہ عوام تو عادی ہو گئی اس بے حسی اور بے کسی کے ساتھ جینے کیلئے لیکن کیا کوئی نوجوان جوڑا اپنی اور اپنی نسل کے اسلامی مستقبل اور اچھی پرورش کے لئے آپ کے ملک پاکستان کا رُخ کرسکتا ہے سوچنا ہو گا اپنے لیے نہیں اپنی نئی نسلوں کے تحفظ اور محفوظ نظام کے نفاذ کے لئے کہ نیا پاکستان بہت ضروری ہے دنیا میں سر اٹھا کر شان سے جینے کے لئے انشاءاللہ نیا پاکستان۔