پاکستان کس طرح قائم ہوا ۔؟میرے خیال سے ہر پاکستانی کو پوری معلومات نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ ضرور معلوم ہوگا ،لیکن قائم ہونے کے بعد جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے اس کے سیاسی حالات ایسے ہیں کہ ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اب تک اس کی بنیادیں کس طرح قائم ہیں ۔پاکستان کو وجود میں آئے65 سال گزر چکے ہیں ،ان 65 سالوں میں5 گورنرجنرل13١ صدر ١ چیف ایگزیکٹو او26 وزیراعظم ملک کی تقدیر سنوارنے کے لئے میدان میں اترے ،ملک کا سیاسی موسم اس تیزی سے تبدیل ہوا کہ65 سالوں میں 13 حکمران اقتدار کے افق پر طلوع ہوکر غروب ہوگئے۔
جہاں یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے وہاں ایک عبرت انگیز داستان بھی ہے کہ ان حکمرانوں کی اقتدار کی ہوس نے ہمیں تنزل کی آخری حد تک پہنچا دیا ،پاکستان کے سب سے پہلے وزیرعظم لیاقت علی خان تھے جنہوں نے پاکستان بننے پر اقتدار سنبھالا ،لیاقت علی خان نے کو6اکتوبر1951کو لیاقت باغ راولپنڈی میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ۔جس کے بعد خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔اور پھر اسی طرح سلسلہ چلتا گیا ۔اس دور میں مارشل لاء کا نفاد بھی عمل میں آیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے ایک مضبوط پارٹی بھی معرض وجود میں آئی،جس کی لیڈر شپ ذولفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی ۔انہیں بھی بے شمار الزامات کا سامنا کرنا پڑا،جس کی وجہ سے انہیں پھانسی دے دی گئی، جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر ایک طویل عرصہ تک قبضہ کئے رکھا ان کے اقتدار کا خاتمہ فضائی حادثہ میںہلاکت کے نتیجہ میں ہوا ، اس طرح بے نظیر بھٹواور نواز شریف کی حکومتوں کی باری آتی رہی پھر ایک ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا دور آگیا جس کے اقتدارختم ہونے کے ساتھ ہی 1908میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا گیا۔
27سمبر2007 کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو جب جلسے سے خطاب کرنے کے لئے لیاقت باغ راولپنڈی تشریف لائیں ،جہاں انہیں شہید کر دیا گیا ،بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پیپلز پارٹی ایک نہایت اہم اور قابل سیا ست دان سے محروم ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 18 فروری 2008 کو عام انتخابات منعقد کرائے گئے جس میں نے پی پی پی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، اور یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنا دیا گیا جب کہ صدر کا عہدہ آصف علی زرداری کے حصے میں آیا۔
Yousuf Raza Gilani
یوسف رضا گیلانی نے شروع شروع میں احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں،لیکن اقتدار کے تقریبا چار سال گزارنے کے بعد ان پر ایسے الزامات لگے جو واقعی ان پر ٹھیک ثابت ہوئے سب سے بڑا الزام توہین عدالت کا تھا جس کی وجہ سے اقتدار چھوڑنا پڑا۔انہیں موصوف نے سیاست میں رہتے ہوئے کئی دہائیوں سے ٹیکس نہیں دیا اور اقتدار چھوڑنے سے دو ہفتے پہلے ایف بی آر سے این ٹی این نمبر حاصل کیا،سپریم کورٹ نے آپ کو نااہل قرار دے دیا گیا،جس کی وجہ سے ان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔
اس کے بعد نئی بحث شروع ہو گئی کہ اب نیا وزیراعظم کسے بنایا جائے؟ شہاب الدین کے نا م کا چرچا عام ہوتے ہی ایفیڈرین کیس میں ان کے وارنٹ سامنے آگئے جس کے بعد بالآخر راجہ پرویز اشرف کو22جون2012کو وزیراعظم کا عہدہ سونپ دیا گیاتھا۔ پرویز اشرف صاحب نے بھی اقتدار میں آکرعوام کے پیسے سے خوب عیاشیاں کیں ،جبکہ انہوں نے بھی ٹیکس کی ادائیگی نہیں کی ،ان پر سب سے بڑا الزام رینٹل پاور پلانٹس میں کرپشن کا ہے ،جو انہوں نے بجلی وپانی کی وزار ت رکھتے ہوئے ترکی سے کرائے پر حاصل کئے تھے۔
ان کے خلاف بھی کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ اب اقتدار نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کو سونپا جس کی ذمہ داری میں شفاف الیکشن کا انعقاد ہونا ہے،مگر یہ صاحب بھی کرپشن میں دوسرے وزیراعظم سے کم نہیں ہیں،حلانکہ آپ سابق جج بھی رہ چکے ہیں ۔انہوں نے اپنی وزارت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں18گیریڈ پر بھرتی کر دیا اور یہ سارا عمل صرف دو دن میں مکمل کیا گیا ،جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے باقی افراد کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ انہوں نے اتنی جلدی میں اپنے بیٹے کو18 گریڈ پر بھرتی کر والیا ہے۔
قارئین ! یہ پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک ماجرا ہے،کہ آج تک پاکستان کو ایک بھی وفادار اور قابل شخص نہیں ملا۔خاص کر20ویں دہائی کے بعد جب پرویز مشرف نے اقتدار چھوڑا تو لگاتار دو ،دو وزیراعظم پر توہین عدالت لگی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ پی پی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں سے ایک بھی مخلص شخص قوم کو نصیب نہ ہوا۔
جو بطور نگران وزیراعظم شفاف الیکشن کا انعقاد کرے،میر کھوسو صاحب نے اپنے بیٹے کو بھرتی کرواکے کرپشن کا پہلا تیر مار دیا ہے ۔ابھی آگے دیکھیں ہوتا کیا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ لمہء فکریہ ہے کہ ہم کل آبادی میں سے نگران وزیراعظم کے لئے ایک بھی ایسا شخص نہ لا سکے جو قوم سے وفادار اور حق کے راستے پر چلنے والا ہو۔ زرا سوچئے