کیا امت مسلمہ کی غیرت مر گئی؟

Hazrat Khalid bin Waleed (RA)

Hazrat Khalid bin Waleed (RA)

امیر تیمور شام کو روندتا جا رہا تھا اچانک جب حمص کے پاس پہنچا ،ہیبتطاری ہوئی، کس کی؟ سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی!!! پھر بغیر فتح حمص کے آگے بڑھا تیمور کی آنکھوں میں کئی منظر ہونگے، اسے وہ اپنا وہ وقت یاد آگیا جب وہ ایک ٹیلے پر صرف سترہ ساتھیوں سمیت پانچ سو کے لشکر سے جا ٹکرایا تھا مگر اپنی یہ بہادری بھی اس کو سیف اللہ کہ مقابلے میں چھوٹی لگ رہی تھی جو کہ چند مسلمانوں کو لے کر رومیوں کہ بحر بے کنار سے جا ٹکرائے تھے۔

اس کی چشم تصور نے دیکھا ہو گا کہ خالد بن ولید اپنی بغل میں مشہور ایرانی پہلوان و سپہ سالار کو دبائے دوڑے جارہے ہیں۔ ایک “ظالم” نے ایک “بہادر” کو خراج تحسین پیش کیا اور حمص کو بغیر تباہ کیے آگے بڑھ گیا! لیکن یہ کون بزدل ہیں جو سیف اللہ کے مزار پر اور اہل بیت کے اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مزارات پر بمباری کر رہے ہیں اب نصیریوں کی شکست یقینی ھے انھوں نے سیف اللہ پر حملہ کیا ہے اور تاریخ گواہ ہے سیف اللہ کے خلاف کوئی جماعت کامیاب نہیں ہوئی! اسلام کے دشمنوں نے اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت واشگاف انداز میں پیش کر دیا۔ اور اب ظلم کا خاتمہ یقینی ہوگا انشاء اللہ۔

جناب رسول اکرم ۖ کے یہ پیارے اور جلیل القدر صحابی پیارے نبی حضرت محمدۖ کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے آج بھی یہ ان گستاخوں کا ہدف ہیں کیونکہ یہ بدبخت ان کی حیات میں تو ان پر کا بال بیکا نہ کرسکے مگر اب اس عاشق نبی ۖکے مزار پر حملہ کرکے اپنے اجداد کی ناپاک اور خزیر روح کو مزید آگ پہنچانے کے درپے ہیں۔حضرت خالد بن ولید ایک سچے مجاہد تھے جب تک زندہ رہے سرکار دو عالمۖ کی مدحت گنگناتے رہے۔

خالد جیسا نہ کوئی تھا اور نہ ہوگا یہ وہی عاشق صادق ہے جس نے علالت کے باعث اپنی آنکھیں بند کرنے سے پہلے اپنے بچوں کو صحابہ اور اہل بیت سے محبت اور عقیدت کادرس دیا ۔تاریخ شاہد ہے کہ حضرت خالدبن ولیدکے جسم کا ایک بالشت حصہ ایسا نہ تھاجو تیروں اور تلواروں کے زخموں سے نہ بھرا ہو۔سرکار دو جہاں حضرت محمدۖ جن کیلئے فرمایا کرتے تھے اے لوگو!تم خالد کو کوئی تکلیف نہ دو کیونکہ وہ اللہ کی تلوار ہیں جس کو اللہ نے کفار پر کھینچا ہے۔ تو پھر اس احادیث مبارکہ کی روشنی میں آپ سب خود فیصلہ کرلیجئے کہ مزار خالد پر حملہ کرنے والے کون ہیں؟۔

میرے نزدیک یہ نہ مسلم ہوسکتے ہیں نہ عاشق…البتہ جہنم وہ بغض میں درد سے چلانے والے وہ حاسد ہیں جنہیں صحابہ کرام کی عظمت اور اہل بیت کرام کی کی محبت اور ایمان سے وابستگی اور مسلمانوں کے ان صحابہ کرام اور اہل بیت کے معزز گھرانوں سے عقیدت عزت و احترام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔یہ وہ ہی خالد ہیں کہ جنگ یرموک میں حضرت خالد کا ٹاکرہ نسطور نامی پہلوان سے ہو رہا تھا کہ ایک موقع پر خالد کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر گیا۔

اور آپ کی ٹوپی زمین پر جاگری اُس وقت خالداپنے رفقاء او ر مجاہدین سے پکار پکار کر کہ رہے تھے اے لوگو مجھے میری ٹوپی پکڑا دو خدارا میری ٹوپی دے دو تو ایک ساتھی نے دورڑ کر آپ کو ٹوپی تھمادی آپ نے فوراً اسے پہنا اور اور شامل جہاد ہوگئے اور تھوڑی ہی دیر میں نسطور پہلوان کو ڈھیر کردیا۔سب نے بعد میں آپ سے پوچھا کہ حالت جنگ میں تو اللہ کے سوا کچھ نہ یاد رہتا تو آپ سب کچھ بھول کر کیوں ایک ٹوپی کے پیچھے دیوانہ ہوئے چلے گئے ؟۔حضرت خالدبن ولید نے تبسم فرمایا اور کہا میرے عزیز دوستوں یہ کوئی معمولی ٹوپی نہیں اس میں میرے پیارے آقاۖ کی پیشانی مبارک کے بال ہیں جو مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے خالد گر جائے یہ مجھے گوارا ہے مگر اللہ کے رسولۖ کے بال مبارک زمین پر گر جائے تو خالد پر جینا حرام ہے۔

Hazrat Muhammad s.a.w.w

Hazrat Muhammad s.a.w.w

اللہ اکبر یہ شان ہے حضرت خالد بن ولید کی اور یہ اظہار عقیدت و محبت ہے پیارے نبی حضرت محمدۖ سے اظہار وابستگی چاہت و عقیدت کا اور آج بدبختوں کی دشمنی اسی عشق سے ہے اور یہ کینہ ان کے اندر موجود ہے اور شاید تا قیامت موجود رہے گا تا وقتیکہ ہم سوئے مسلمان کی غیرت و حمیت نہیں جاگ جاتی اور یہی نہیں اس برکتوں اور رحمتوں کے مہینے میں بغض اور حسد کی آگ میں جلنے والوں نے دمشق میں نواسی رسولۖ جگر گوشہ بتول جناب سیدہ حضرت زینب کے کے مزار پر بھی راکٹ داغے۔ او
رمیرے پیارے رسول ۖ کی نواسی علم کے باب حضرت علیکی بیٹی اور راہ حق کے شہید حضرت حسین کی پیاری بہن کے مزارکو شہید کردیا گیا کہ جیسے دیکھ کر یزید بھی شائد شرما جاتا کہ میرے چیلے تو مجھ سے بھی بدبخت نکلے۔

یہی وہی بی بی زینب ہیں اور امام حسین کی وہ بہادر بہن کہ میدان کربلا میں یزید کی فوج کیخلاف لڑائی میں ان کے بیٹے عون اور محمد نے جام شہادت نوش کیا ۔حضرت امام حسین علیہ اسلام اور ان کے 72ساتھیوں کی شہادت کے بعد سیدہ زینب کو گرفتار کرکے یزید کے سامنے لایا گیا تو یہاں پرحضرت زینب نے یزید کے سامنے جرات و بہادی کامظاہر کرتے ہوئے وہ یادگار خطبہ دیا کہ جس نے نئی تاریخ رقم کردی۔میں پہلے سمجھتا تھا کہ کوئی مسلمان کسی مسجد یا کسی مزار پر حملہ نہیں کرسکتا مگر پاکستان سمیت تمام دنیا اور عالم اسلام کے بغور مشاہدہ کے بعد میرے سوچ میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔

اقتدار لالچ اور ہوس نے ان سب کو اندھا کردیا ہے حضرت خالد بن ولید کہ جنہیں نبی اکرم سیف اللہ کا لقب دیتے ہیں اور نبی پاک کی نواسی جو یزید کے سامنے کلمہ حق کہنے سے نہ ٹلی ان ہستیوں کے مزاروں پر حملے اور انہیں شہید کرنے کی ناپاک جسارت ہم میں سے موجود لوگوں نے ہی کی اور تاریخ یزیدیت کو پھر دہرایا کہ اقتدار کی جنگ ہماری اقدار سے بھی اہم ہے ۔خدا غارت کرے ان مادہ زر میں مبتلا ہوس پرستوں کو۔

یہی وہ بدبخت تھے جنہوں نے ایران عراق جنگ کے دوران کربلا میں حضرت امام حسین کے مزار کے اندر گھس کر باغیوں پر فائرنگ کی تھی جس کی گولیوں نے مزار حسین کی دیواروں کو چھلنی کردیا تھا اسی آپسی خلفشار کا فائدہ اٹھا کر امریکہ نے امام ابو حنیفہ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر بمبار ی کی تھی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خلفشار کو ہوا دینے میں ان مغربی قوتوں کا ہاتھ ملوث ہے اور ان قوتوں نے کئی مساجد اور مزاروں پر بمباری کی مگر اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ پاکستان میں درجنوں مساجد پر خودکش حملے امام حسین بی بی زینب حضرت خالد بن ولید حضرت علی ہجویری اور کئی دیگر بزرگوں کے مزاروں پر حملہ کسی کافر نے نہیں کیابیشک ان کا ماسٹر مائنڈ کافر ہو لیکن ان حملوں میں استعمال ہونے والے مسلمان تھے۔

اب بھی وقت ہے کہ مسلمانوں کے آپسی اختلافات اور غیر ملکی قوتوں کی زد میں آئے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھانے والی او آئی سی جاگ جائے اور ان کی مسلم حمیت کا مادہ جوش میں آجائے تو ان سب چیزوں کا تدارک ہو سکتا ہے ان تمام چیزوں میں ہمیں شیعہ سنی یا کوئی اور مذہبی فرقہ بن کر نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمان بن کر سوچنا ہوگا اور اکٹھے ہوکر اس مسائل پر قابو پانے کیلئے کچھ کرنا ہوگا اور کافروں کے اس ناپاک کھیل کو روکنے کیلئے تمام مکتبہ فکر کے علماء کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔

عالم اسلام کے تمام علما کو چاہیے کہ وہ ان فرقہ وارانہ نسلی لسانی عصبیتوں کا جائزہ لیں اور قرآن حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کو آپس کی صفوں میں اتحاد کی اپیل کریںاور کفار کی سازشوں کو ناکام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمارے ان گروہی اختلافات نے ہمیں تار تار کرکے رکھ دیا ہے ۔ کفار کی ان سازشوں کو سمجھنا ہوگا اور اس چنگل سے آزاد ہوکر ان سازشوں کو ختم کرنا ہوگا تو شاید ہمیں عزت کی موت نصیب
ہوجائے۔

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر: امجد قریشی