تحریر : کامران غنی صبا، پٹنہ سوشل میڈیا خاص طور سے فیس بک اور واٹس ایپ کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صرف وقت گزاری کے ہی ذرائع نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال کسی کی زندگی کو بنانے یا بگاڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
عام طور سے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے لوگ مذہبی، سماجی اور جذباتی قسم کی پوسٹ بغیر سوچے سمجھے ڈھڑلے سے اپنے دوستوں اور مختلف گروپس میں فارورڈ کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ تو اللہ رسول کا واسطہ دے کر پوسٹ فارورڈ کرائی جاتی ہیں۔
مثلاً “اس پوسٹ کو شیئر نہیں کیا تو آپ پکے مسلمان نہیں ہیں” “اسے وہی شیئر کرے گا جو اپنے رسول کا سچا عاشق ہوگا” “اس پوسٹ کو شیئر کیا تو چار گھنٹے میں خوشی دیکھنے کو ملے گی” “اس پوسٹ کو شیئر نہیں کیا تو چار گھنٹے میں آفت آئے گی۔” وغیرہ وغیرہ سیدھے سادے لوگ جذباتی قسم کی پوسٹ سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں اور بغیر غور و فکر کے اسے آگے فاورڈ کرتے چلے جاتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں میرے پاس ایک پروفیسر صاحب کا میسج آیا۔ میسج ہندی میں تھا اور کچھ یوں تھا۔۔۔۔
” گڈ نیوز۔۔۔۔۔ آخر کسی نے کچھ تو شروع کیا۔ مشکل میں پھنسے مسلمانوں کے لیے ہیلپ لائن کھولا ہے راشٹروادی مسلم منچ نے۔
پہلے ہی دن 742 کالز آئے ہیں۔
اگر کسی مسلم لڑکی کو کوئی لڑکا پریشان کر رہا ہے تو اسے کیسے بچائیں۔ اس کی جانکاری بھی دی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ پھر پوسٹ کے آخر میں تقریبا دس الگ الگ موبائل نمبر درج تھے۔
میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ راشٹروادی مسلم منچ کے بارے میں جانتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ نہیں۔ میں ںے پوچھا کہ کیا آپ نے دئیے ہوئے نمبر میں سے کسی نمبر پر بات کی؟ اس کا جواب بھی ان کے پاس نفی کی صورت میں ہی تھا۔
اب آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک پروفیسر اتنا غیر ذمہ دار اور جذباتی ہو سکتا ہے تو ایک کم پڑھا لکھا عام انسان غلطی کیوں نہیں کر سکتا۔ (واضح رہے کہ راشٹروادی مسلم منچ آر ایس ایس کی ایک شاخ ہے) کچھ مہینہ قبل واٹس ایپ کے ایک گروپ میں ایک پروفیسر صاحب نے ممبئی کی کسی لوکل ٹرین کے حادثہ کی خبر دی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ خبر صحیح نہیں ہے۔ جب تک انہوں نے معذرت کی تب تک وہ میسج کئی گروپس میں گردش کر چکا تھا۔
ایسی بے شمار مثالیں خود آپ کے ذہنوں میں بھی موجود ہوں گی کہ جب آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ پہلی نظر میں صحیح نظر آنے والی بات بالکل بے بنیاد اور جھوٹ تھی۔
ایسا نہیں ہے کہ ایسی پوسٹ یوں ہی تفریح طبع کے لیے وائرل کی جاتی ہیں۔ بلکہ ان کے پیچھے بہت سارے مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تجارتی کمپنیاں یہ تجربہ کرنے کے لیے کہ تجارت کا فروغ کس طرح کیا جائے اس طرح کے پیغامات بھیج کر تجربات کرتی ہیں۔ کئی دفعہ شرپسند عناصر کی طرف سے بھی ایسی پوسٹ وائرل کی جاتی ہیں تاکہ ہماری توجہ اصل مسائل کی طرف سے ہٹ جائے اور ہم اس طرح کی غیر ضروری چیزوں میں الجھے رہیں۔
اس سلسلہ میں قرآن پاک نے ہمیں واضح اصول دے دیا ہے۔ اگر ہم قرآنی اصول کو ملحوظ رکھیں تو کبھی بھی پروپیگنڈوں کا شکار نہ ہوں۔ قرآن کہتا ہے ﴿ يأيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا أن تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين ﴾ … سورة الحجرات اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت میں کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔‘‘
فیس بک یا واٹس ایپ پر آپ کو ملنے والے پیغامات زیادہ تر آپ کے رشتہ دار یا دوستوں کے ہوتے ہیں لیکن کیا معلوم کہ جو میسج آپ تک پہنچا ہے اس کی شروعات کسی “فاسق و فاجر ” سے ہوئی ہو۔ لہذا کسی خبر کی جب تک اچھی طرح تصدیق نہ ہو جائے اسے آگے بھیجنے سے گریز کرنا چاہیے۔
مسلم شریف کی ایک حدیث ہے کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘
اس طرح بغیر تحقیق کسی بھی پوسٹ کو فارورڈ کر کے ایک طرف جہاں ہم قرآنی اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں وہیں انجانے میں شرپسند عناصر کی سازشوں کو کامیاب بنانے میں بھی غیر دانستہ طور شامل ہو جا رہے ہیں۔ اس لیے فیس بک ، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں سے گرازش ہے کہ کسی بھی پیغام کو فارورڈ کرنے سے پہلے وہ ہزار بار سوچ لیں۔ آپ کی انگلیوں کی ایک ذرا سی جنبش آپ کو جھوٹا، گناہگار اور فاسقوں کی صف میں لا کھڑا کر سکتی ہے۔