گندم کی کٹائی، و نگار کی روداد اور بارچوائی

Wheat Harvest

Wheat Harvest

تحریر: محمد صدیق پرہار
یہ اس دور کی بات ہے جب ہم گھرسے ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے روزانہ پرائمری سکول جایا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ایک دوسرے کا احساس کیا جاتا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس بھی کیا جاتا اور اسے ختم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی۔

یہی تووہ دورتھا جب دلوںمیں خلوص، لہجوںمیں اپنائیت ،دوستوں میں مروت اوررشتوںمیںمحبت باقی تھی۔یہ وہ دورتھا جب بڑوںمیں شفقت اورچھوٹوںمیں ادب کی خوبصورت عادت تھی۔لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے میلوںسفرکرکے جایا کرتے تھے۔آج کل پنجاب اورسندھ سمیت ملک کے مختلف علاقوںمیں گندم کی کٹائی جاری ہے۔ایسا اس سال نہیں ہرسال ہوتاہے۔ فرق صرف اتناہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوںجوں جدید ٹیکنالوجی کااستعمال بڑھتا جارہا ہے ۔ اسی طرح گندم کی کٹائی کے اندازبھی بدلتے جارہے ہیں۔پہلے پانچ بچوںکاباپ پانچ سے سات ایکڑگندم تنہا کاشت بھی کرلیتاتھا۔ اس کی دیکھ بھال بھی کرتااوربھراس فصل کوکاٹ بھی لیتاتھا۔ اب پانچ ہٹے کٹے جوان اسی طرح ایک ایکڑپربھی محنت نہیں کرسکتے۔جس دورکی ہم بات کررہے ہیں۔ اس دورمیں ایک دیہی علاقے میں ایک کاشتکاررہا کرتا تھا۔

اب وہ وہاں سے اٹھ کرکسی اورجگہ منتقل ہوچکاہے۔وہ کھیتی باڑی کاکام بھی کرتا تھا۔ اس نے گھرکے نزدیک کریانہ کی ایک دکان بنائی ہوئی تھی۔وہ علاقہ کے بچوںکوقرآن پاک کی تعلیم بھی مفت دیتاتھا۔ جس کی وجہ سے لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔وہ مویشی پالنے کاشوقین بھی تھا۔ درخت بھی لگائے ہوئے تھے۔ کبھی ایک دومویشی فروخت کرکے اورکبھی تین چاردرخت بیچ کرگزربسرکرتاتھا۔بیرون ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک زمیندارکی چھ ایکڑقابل کاشت زمین اس کے پڑوس میں تھی۔نہ جانے اسے کیا سوجھی کہ اس نے اس سے اس کی چھ ایکڑزمین کاشت کرنے کے لیے ٹھیکہ پرلے لی۔اس نے اس زمین میں گندم کاشت کرلی۔ابھی گندم نے کونپلیں ہی نہ نکالیں تھیں کہ بارش آگئی۔ بارش کی وجہ سے زمین پرسخت تہہ جم گئی۔اسے گندم کی بوائی پھرکرنا پڑگئی۔وہ کاشتکاردن رات کھیتوںمیںرہتا۔کیونکہ تنہاشخص کے لیے چھ ایکڑفصل میںکام کرناآسان کام نہیں ہے۔اس کے بچے ابھی چھوٹے تھے جواس کاکھیتوںمیںہاتھ نہیں بٹاسکتے تھے۔اس کی فصلات کوسیراب کرنے کے لیے نہری پانی بھی میسرتھا ۔ مگروہ ناکافی تھا۔ اس لیے اسے ٹیوب ویل کے پانی سے فصلوںکوسیراب کرناپڑتاتھا۔اکثروہ کھیتوںمیں تنہا کام کرتاتھا۔ اس کی بیوی بھی اس کے کام میںاس کاہاتھ بٹایاکرتی۔ کبھی اس کے رشتہ داربھی اس کی مددکرنے آجایاکرتے تھے۔گندم کی فصل پک کرتیارہوگئی۔آس پاس کے کھیتوںمیں گندم کی کٹائی شروع ہوگئی۔ ایک دن وہ گھرمیں بیٹھا مشورہ کررہاتھا کہ چھ ایکڑگندم ہم دوافرادسے تونہیں کاٹی جاسکتی۔اگرہم دوافرادہی اسے کاٹتے رہے تونئی فصل کاوقت بھی گزرجائے گا۔گندم بھی خراب ہونے کااندیشہ ہے۔ اب کیا کیاجائے اورکیا نہ کیا جائے۔

اگر مزدوری بھی کٹواتے ہیں توٹھیکہ بھی دیناہے ۔ وہ کیسے دیں گے۔کافی سوچ بچارکے بعد یہ طے پایا کہ ایک دن کے لیے ونگاربلالی جائے۔ دن طے کرلیاگیا۔پھرسب رشتہ داروںکواس ونگارکی اطلاع دے دی گئی۔ونگارکے کھانے پینے اوران کے دوپہرکے وقت سستانے کے انتظامات بھی کرلیے گئے۔مقررہ دن صبح سورج نکلتے ہی کم وبیش پچاس افراداکٹھے ہوگئے۔نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت کی گونج میں بسم اللہ شریف پڑھ کرگندم کی کٹائی شروع کردی۔ظہرکی نمازسے پہلے وہ یہ چھ ایکڑگندم کاٹ چکے تھے۔ظہرکی نمازکے وقت وہ اس کاشتکارکے گھرآگئے۔ سب نے وضوکرکے جماعت کے ساتھ نمازاداکی۔اس ونگارمیں مردوں کے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ مردگندم کاٹتے رہے۔ جبکہ خواتین ان کے کھانے پینے کاانتظام کرتی رہیں۔جب وہ نمازپڑھ چکے توان کے لیے بچھائی گئی چارپائیوںپروہ دودو،تین تین اورچارچاافرادایک ایک چارپائی پربیٹھ گئے۔چارپائیاں درختوں کے سائے کے نیچے بچھائی گئی تھیں۔چارپائیون کے نیچے اوراردگرداچھی طرح پانی سے چھڑکائوکیاگیاتھا تاکہ ونگاریوںکوزیادہ گرمی محسوس نہ ہو۔

Farmers

Farmers

اس دن آہستہ آہستہ ہوابھی چل رہی تھی۔ جواس پانی کے چھڑکائو سے گزرکرونگاریوںکوبھلی معلوم ہورہی تھی۔برف کاٹھنڈاپانی اوردیہات کی روایتی لسی لاکررکھ دی گئی۔دولڑکے ان ونگاریوںکوپانی اورلسی پلانے پرمامورکردیے گئے۔اتنی دیرمیں تنورپرپکائی گئی گرم گرم نرم ملائم روٹیاں اورخرگوش کے گوشت کامزے دارسالن سب کے سامنے رکھ دیاگیا۔ونگاری کھانا بھی کھاتے رہے اورتھکان دورکرنے کے لیے خوش گپیوںمیںبھی مصروف رہے۔جب وہ کھاناکھاچکے توان کے لیے گائے کے دودھ کی چائے بنائی گئی۔ چائے پی کروہ سستانے کے لیے لیٹ گئے۔عصرکاوقت ہوا۔ تووہ بیدارہوگئے۔ سب نے ایک بارپھرتازہ وضوکیا۔عصرکی نمازجماعت کے ساتھ اداکی۔ پھرکھیتوںکوروانہ ہوگئے۔وہ کھیتوںمیں کاٹی گئی گندم کی گٹھیاں بنانے میں لگ گئے ۔ کوئی گٹھیوںکوباندھنے کے لیے کھجورکے نرم نرم تنوں سے بنائی گئی رسیاں بچھائے جارہا تھا۔اٹھا اٹھاکراس پرڈال رہا تھا۔ دودوافرادمل کران گٹھیوںکوباندھے جارہے تھے۔ادھرنمازمغرب کی اذانین بلندہوئیں ادھروہ گندم کی گٹھیاں باندھ کرفارغ ہوگئے۔ سب نے نمازمغرب جماعت کے ساتھ اداکی۔ پھروہ سب اپنے اپنے گھروںکودعائیں دیتے ہوئے اوروصول کرتے ہوئے چلے گئے۔رات ہوئی تووہ کاشت کار بڑاخوش تھا کہ جوکام وہ کئی ہفتوںمیں بھی نہ کرسکتا تھا۔وہ ایک ہی دن میں ہوگیا۔عشاء کی نمازاداکرکے وہ کاشتکاراوراس کے گھروالے گہری نیندسوگئے۔صبح ہوئی توسب گھروالے بیدارہوئے۔ حسب معمول نمازفجراداکی۔ قرآن پاک کی تلاوت کی۔کاشتکاراوراس کے بچوںنے مل کرگھرمیں باندھے ہوئے مویشیوںکی دیکھ بھال کی۔ ان کاگوبروغیرہ صاف کیا۔ کاشتکارکی بیوی نے پہلے دیہات کی روایتی لسی تیارکی۔

پھر ناشتہ بنایا۔ابھی وہ ناشتہ کرہی رہے تھے کہ ونگاریوںمیں سے پانچ سات رشتہ دارپھر آگئے۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی۔کاشتکارنے ان رشتہ داروںکی خاطرتواضع کے بعدآنے کاسبب پوچھا تووہ کہنے لگے کہ کل (گذشتہ) توگندم کی گٹھیاں باندھ دی گئیں تھیں۔ شام ہوگئی تھی۔ ہم سب اپنے اپنے گھروںکوچلے گئے تھے۔ گندم کی گٹھیاںزیادہ ہیں ان کے ڈھیربھی لگانے ہیں۔ہم نے سوچا یہ کام بھی تم لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ تمہیں چارسے پانچ دن لگ جائیں گے۔ہم جاکران گٹھیوںکاڈھیرلاگادیتے ہیں۔کھیتوںمیں جاکرانہوںنے ان گٹھیوں کے دوبڑے بڑے ڈھیرلگادیے۔عصرکی نمازکے وقت وہ ڈھیرلگاچکے تھے۔ نمازاداکرکے یہ کہتے ہوئے اپنے اپنے گھروںکوروانہ ہوگئے کہ جس دن تھریشربلواناہمیں ضروراطلاع کرنا۔ ہم تمہاری مددکرنے ضرورآئیں گے۔گندم کی گہائی کے سیزن میں تھریشریں دن رات مصروف ہوتی ہیں۔وہ کسی کودن اورکسی کورات کاوقت دیتے ہیں۔وہ قریب قریب کے ڈھیروںکی گہائی ایک ہی ترتیب سے کرتے ہیں۔اس کاایک فائدہ تویہ ہوتا ہے کہ تھریشروالوںکوبارباران کھیتوںمیں آنانہیںپڑتا۔ جس سے ان کووقت اورڈیزل کی بچت ہوتی ہے۔دوسرافائدہ یہ ہوتاہے کہ جب کسی ایک ڈھیرکی گہائی شروع ہوتی توآس پاس کے کاشتکارچوکس ہوجاتے تھے۔جس کاڈھیراس ڈھیرکے نزدیک ہوتاتووہ تھریشروالوں سے پوچھتا رہتا کہ یہاں سے کب فارغ ہوکراس کے ڈھیرکی گہائی کرنے آرہے ہو۔ وہ اندازے سے وقت بتادیتے۔نزدیکی کاشتکارمقررہ وقت سے پہلے اپنی تیاریاںمکمل کرلیتاتھا۔اسی طرح اس کاشتکارکے کھیتوںمیں بھی ایک دن تھریشرآگئی۔اس دورمیں گندم کاڈھیرلگایا جاتاتھا۔ گندم زیادہ ہوتی تودودوتین تین ڈھیربھی لگادیے جاتے تھے۔ جس کے لیے زمین پرپہلے سے صفائی کردی جاتی تھی تاکہ گندم صاف رہے۔ تھریشرسے نکالتے ہی بوریوںمیں نہیں ڈالی جاتی تھی۔تھریشربھی آگئی۔گندم کی گہائی میںاس کاہاتھ بٹانے کے لیے رشتہ داربھی آگئے۔ریت اڑاکرہواکارخ معلوم کیا گیا تاکہ بوسہ اس طرف چھوڑاجائے جس طرف ہواہو۔ٹریکٹرکی مدد سے تھریشر چل رہی تھی۔دوافرادباری باری گندم کی گٹھیاںتھریشرمیں ڈال رہے تھے۔ ایک تھک جاتاتودوسراگٹھیاں ڈالنے لگتا۔دوتین افرادگٹھیاںان کے نزدیک کررہے تھے۔تاکہ انہیںاٹھانے میں مشکل کاسامنانہ کرناپڑے۔گندم خوشوں سے الگ ہوکرتھریشرکے نیچے بنائی گئی مخصوص جگہ سے باہرآرہی تھی۔اس مخصوص جگہ کے نیچے برتن رکھنے کے لیے چھوٹاساگڑھاکھوداگیا تھا۔

Wheat Field Harvest

Wheat Field Harvest

چارلڑکے تھریشر سے نکلی ہوئی گندم تغاریوںمیں بھربھرکرچندقدم کے فاصلے پرڈھیرلگاتے جارہے تھے۔انہوںنے اس گٹھیوںکے اس ڈھیرسے گندم کے دوڈھیربنائے۔جب اس ڈھیرکی گہائی مکمل ہوئی توسب نے کھاناکھایا ۔ چائے پی۔ پھر تھریشر دوسرے ڈھیرکی گہائی کے لیے اس کے پاس لے جائی گئی۔گٹھیوںکے دوسرے ڈھیرکی گہائی بھی پہلے ڈھیرکی طرح مکمل ہوئی۔دوافرادنے مل کرگندم کے وزن کااندازہ لگایااس کے مطابق تھریشر والے کوگہائی کی مزدوری دی گئی۔تھریشر والے اوراس کاشتکارکی مددکے لیے آئے ہوئے اس کے رشتہ داراپنے اپنے گھروںکوچلے گئے۔اس کاشتکاراوراس کے بچوںنے گندم کے ڈھیروںکوہرطرف سے درست کیا۔کاشتکارنے ڈھیرکے اردگردلکڑی سے لکیرلگائی جسے کڑادیناکہتے ہیں۔ کہتے ہیں اس طرح گندم حفاظت میں رہتی ہے۔ دل میں کچھ پڑھ کے گندم کے ڈھیرپرتین پھونکیں ماریں۔ گندم کے چاروں ڈھیروںپریہی عمل کرکے وہ گھرآگیا۔چارسے پانچ دن کے بعد اس نے بستی میں اعلان کردیا کہ کل صبح دن چڑھے ہم اپنی گندم اٹھائیں گے۔دوسرے دن مقررہ وقت پروہ کاشتکارگھرسے ہاتھ میں پکڑنے والابڑاترازو،پانچ کلوگرام، دوکلوگرام ،ایک کلوگرام، پانچ سوگرام اوردوسوگرام کے اوزان لے کرگندم کے ڈھیروںکے پاس پہنچ گیا۔اس کے بچے اوربیوی خالی بھی بوریاںاورپولی تھین بیگ لے کرپہنچ گئی۔وہ ترازوسے گندم کاوزن کرکرکے بیوی بچوںکی مددسے بوریوںمیںڈالتاگیا۔چوتھاڈھیرنصف وزن کیا تھا کہ اس نے وزن کرنابندکردیا۔محلہ کے بچے ،بچیاں، اللہ کے نام پرمانگنے والے اکٹھے ہوچکے تھے۔ اس کاشتکارنے سب سے پہلے چھوٹے بچوں میں سے ہرایک کودوکلوگرام گندم دی۔اس کے بعد اللہ کے نام پرمانگنے والوں کوفی کس ایک کلوگرام گندم دی۔پھراس نے بہنوں ، بھتیجیوں، بھانجیوں اوردیگررشتہ دارخواتین کے لیے ہرایک کے لیے پانچ پانچ کلوگرام الگ کرلی۔اس کے بعد اس نے گائوں کے ہیرڈریسر کے لیے دس کلوگرام گندم الگ کرلی۔اس کے بعد بچوںکوقرآن پاک پڑھانے والے معلم قرآن کے لیے ساٹھ کلوگرام ، بستی کی مسجد کے امام پیش کے لیے چالیس کلوگرام ، علاقے کے مولوی صاحب کے لیے بیس کلوگرام،غرباء اورفقراء کے لیے پچاس کلوگرام گندم الگ کرلی ۔اس عمل کودیہاتی زبان میں بارچوائی کہتے ہیں ۔اس کے بعد جوگندم بچ گئی ۔ وہ اس نے وزن کرکے بوریوںمیںبندکرلی۔اس کے بعد اس نے گھرکے استعمال کے لیے سال بھرکے لیے گندم گھرروانہ کردی۔اس کے بعدجوگندم بچی وہ اس نے گدھاریڑھی پرلوڈکراکے شہرفروخت کرنے کے لیے شہرمیں آڑھتی کے پاس بھیج دی۔

اس دورمیں اوراس سے پہلے دیہات میں رہنے والے سادہ مسلمان صبح کے وقت گندم کی کٹائی کے ایام میں نمازفجر اداکرتے،مویشیوںکی دیکھ بھال کرتے، ناشتہ کرکے گندم کاٹنے کے لیے کھیتوںکوروانہ ہوجاتے۔اکژدیہاتی گندم کی کٹائی مزدوری پرکرتے ہیں ۔ فی ایکڑ ایک بوری گندم کٹائی کی مزدوری میں دی جاتی ہے۔لیکن اب جدیدٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے گندم کی کٹائی کے اندازبھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔اب تومشینیں آتی ہیں ۔ ایک ہی دن میں ایکڑوں گندم کاٹ کرچلی جاتی ہیں۔اب مزدوری پرگندم کی کٹائی کارواج کم ہوتاجارہا ہے۔اب ونگارکادوربھی نہیں رہا۔پہلے گندم کے ڈھیرلگائے جاتے تھے۔پھرکئی دن بعد گندم کاوزن بھی کیاجاتاتھا ۔ اس تحریر میں ونگارکی رودادمیں جن کرداروںکاذکرہوچکاہے۔ ان سب کو گندم دی جاتی تھی۔اب گندم کے ڈھیرنہیں لگائے جاتے تھریشرسے نکالتے ہی بوریوںمیں بھرکر اسی وقت منڈیوں میں بھیج دی جاتی ہے۔اب چھوٹے بچوں، مولوی صاحب، رشتہ داروں اورغریبوںکوگندم نہیں دی جاتی۔پہلے گندم کی خیرات کی جاتی تھی۔جس کی وجہ سے گھرمیں برکت ہوتی تھی۔ کھیتوںمیں بھی برکت ہواکرتی تھی۔اب تھریشر سے نکالتے ہی بوریوںمیں ڈال کرمنڈیوںمیں بھیج دی جاتی ہے۔پہلے فی ایکڑپیداوارکم تھی تاہم اس میں برکت ہواکرتی تھی۔اب فی ایکڑپیداوارمیں اضافہ ہوچکاہے ۔لیکن اس میں برکت نہیں رہی۔صدقہ خیرات کرنے سے گندم سمیت کوئی چیزکم نہیں ہوجاتی بلکہ اس میں خیروبرکت آجاتی ہے۔اللہ پاک، اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اورمخلوق خداکے حقوق اداکرنے سے نقصان سے بچاجاسکتاہے۔جدیدٹیکنالوجی کااستعمال ضرورکیاجائے تاہم اپنی ثقافت اوراقدارکونہیں چھوڑناچاہیے۔بارچوائی ہماری ثقافت کاحصہ بھی ہے اورہماری اقدار کا تسلسل بھی۔

Mohammad Saddiq Perhar

Mohammad Saddiq Perhar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com