کراچی (جیوڈیسک) وفاقی حکومت نے ملک میں گندم کے مقامی ذخائر کی عدم فروخت کے باعث گندم کی درآمدات پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے، امکان ہے کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گندم کی درآمد پرریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا جائے گا۔
فلورانڈسٹری بتایاکہ حکومت کی جانب سے مذکورہ فیصلہ کاشت کاروں کو ممکنہ بحران سے بچانے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے کیونکہ ملک میں پیدا ہونے والی گندم کے مقابلے میں درآمدی گندم کی قیمت 2.50 روپے فی کلو گرام کم ہے، درآمدی گندم 32 روپے جبکہ مقامی گندم 34.50 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت کی جارہی ہے۔
کہ گندم کی درآمدات پر مجوزہ 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے نتیجے میں آٹے کی فی کلوگرام قیمت میں بھی مرحلہ وار 2 سے ڈھائی روپے کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہونے کی صورت میں درآمدی گندم کی فی کلوگرام قیمت 5.75 روپے کے اضافے سے 37.75 روپے کی سطح تک پہنچ جائے گی۔
فلور ملز مالکان نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ درآمدی گندم مقامی گندم کی نسبت کم قیمت ہونے کے باعث فلورملز مالکان مقامی گندم کی خریداری سے گریز کر رہے ہیں تاہم ملز مالکان نے کم قیمت درآمدی گندم سے تیار ہونے والے آٹے کی قیمتوں میں کمی کر کے عام صارف کو بھی فائدہ دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 40 روپے قیمت کے حامل آٹے کی ایکس مل قیمت گھٹ کر37 روپے فی کلو گرام کی سطح پر آگئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ملک میں روس اور یوکرائن سے گزشتہ 2 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 5 لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی جبکہ مزید 1 لاکھ ٹن گندم کے 2 بحری جہاز جلد ہی پاکستان پہنچنے والے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں فی الوقت مقامی طور پر پیدا ہونے والے گندم کے 86 تا 90 لاکھ ٹن ذخائر موجود ہیں جو ملکی ضروریات کیلیے کافی ہیں لیکن اس کے باوجود نجی شعبہ بیرونی ممالک سے سستے داموں گندم درآمد کرنے کو ترجیح دے رہا ہے جس کے سبب گندم کے سرکاری وغیرسرکاری ذخائر سے فلورملیں گندم نہیں اٹھا رہیں۔
کہ فی الوقت سندھ میں سرکاری سطح پر 11 لاکھ ٹن جبکہ پنجاب حکومت اور پاسکو کے پاس 55 لاکھ ٹن کے غیرفروخت شدہ ذخائر موجود ہیں، اسی طرح بلوچستان، خیبرپختونخوا اور کھلی منڈی میں 20 تا 25 لاکھ ٹن گندم کے غیرفروخت شدہ ذخائر موجود ہیں لیکن فلورملزکی جانب سے مقامی گندم کی خریداری سرگرمیاں رکی ہوئی ہیں جس سے اس خدشہ ہے کہ پرانی گندم کے ذخائر فروخت نہ ہونے کے سبب آنے والے سال میں کاشت کاروں سے سرکاری سطح پر خریداری نہیں ہوسکے گی اور زرعی شعبے میں ایک نیا بحران کھڑا ہوجائے گا۔