تحریر : انجینئر افتخار چودھری بڑے دنوں سے کوشش تھی کہ اس شہر با کمال میں جایا جائے جہاں بچپن گزارا جوان ہوا او ادھڑنے کی عمر میں پنڈی آن بسا۔ہزارہ اور ان جیسے پسے ہوئے علاقوں کی مائوں کی بد قسمتی ہے کہ لوگ یہاں پیدا ہوتے ہیں لیکن مرتے کہیں اور ہیں میں بھی نلہ ہری پور میں پیدا ہوا ہوش سنبھالی تو باغبانپورے محلے کی مسجد صدیقیہ والے گھر میں موجود تھا پرائیمری یہیں کی ایچی سن کالج میں حاصلی کی ماسٹر غلام رسول کے ٹھڈوں کی سنسنی ابھی بھی ریڑھ کی ہڈی میں محسوس ہوتی ہے میرے اس ایچی سن کا نام تھا ایم سی پرائیمری اسکول نمبر ٥،جو یہاں نہیں پڑھتے تھے وہ اسے کھوتی اسکول کہتے تھے کیوں کہ ہم بھی ان کے اسکولوں کو کھوتی اسکول کہتے تھے۔ربیعہ اور اس کی امی پچھلے کئی دنوں سے بازار جا رہے تھے ہم ایک بار پھر دادا بننے والے تھے پتہ چلا کہ ہماری پوتی ہونے والی ہے یعنی ڈاکٹر نبیل ایک بیٹی کے باپ بننے والے ہیں ہمارے زمانوں میں بچے کے کپڑے گھروں میں سلتے تھے زیادہ تر فراکیں ہی ہوا کرتی تھیں لڑکی ہو گئی تو بہت اچھا فراک چل نکلتی تھی لڑکا ہوا تو وہ اسے فراک مجبورا پہننا پڑتی تھی اور بچے کے والدین ابتدائی کئی مہینوں میں یہ بتا بتا کر تھک جاتے تھے کہ یہ لڑکا ہے۔وقت نے کیا کیا خوشیاں چھین لیں اب کوئی چھت پر جا کر چاند نہیں دیکھتا اس لئے کہ چاندھ اب دیکھا نہیں جاتا اسے چاڑھا جاتا ہے چاہے یہ منیبی ہو یا پوپلزئی ہو۔اسی طرح دائیوں کی جانب سے کسی اعلان کا انتظار کیا جاتا تھا ماسی دارو کی منت سماجت کی جاتی کہ سب سے پہلے ہمیں یہ خبر دے کہ ہوا کیا ہے۔کئی ایک فلموں میں ایک بندہ آپریشن تھیٹر کے باہر سر جھکائے ہاتھ پیچھے باندھے گشت کرتا دکھائی دیتا تھا اور پھر کوئی نرس اسے بتاتی ہے کہ لڑکا ہوا ہے یا لڑکی۔ ہم نے جمعرات کی سہ پہر کو سامان گاڑی میں رکھا اور عازم گجرانوالہ ہو گئے۔
دادی اور پھپھو کی خوشیاں اپنی جگہ ادھر جدہ سے شکیل اور دلدار پریشر بڑھا رہے تھے کہ ابھی گئے نہیں۔لانسر کی اگلی سیٹ پر سعیدہ براجماں ہوئیں اور پیچھے ربیعہ بیٹھ گئیں ۔جہاں جانا ہوتا ہے بیگم مکمل تیاری کر کے جاتی ہیں میرے کپڑے جوتے ٹوھ پیسٹ برش دوائیاں اب تو زاد راہ میں انسولین اور ملحقہ دوائیاں بھی شامل ہو گئیں ہیں اس کے لئے برف میں ڈال کر دو انسولین کی بوتلیں بھی لے لی گئیں۔ربیعہ میری بیٹی کی عادت ہے کہ گاڑی چلتے ہی اسے کچھ نہ کچھ چاہئے ہوتا ہے اب تو وہ بڑی ہو گئی ہے بچپن میں جدہ عزیزیہ سے نکلتے ہی سیٹ کو پیچھے سے ماں کو مطابہ رکھ دیتی تھی کہ کسی جگہ رکا جائے مکہ جا رہے ہوں یا مدینہ منورہ پہلے پٹرول پمپ سے کچھ نہ کچھ ضرور لینا ہے مکہ کے لئے کلو ١٤ کا پمپ اور مدینہ جاتے ہوئے شہر سے نکل کر محطہ ہماری خریداری کا مرکز بنتا تھا۔اس بار خوشی تھی کہ گھر میں بائیس سال پہلے ایک ننھی پری آ رہی تھی ربیعہ جدہ میں العزیزیہ ہسپتال میں پیدا ہوئی تھی۔پندرہ اگست ١٩٩٥ کے دن مستشفی ولادہ حی العزیزیہ میں پیدا ہوئی۔میں ان دنوں پاکستانی اسکول کے پیچھے رہا کرتا تھا دوست اسے چودھری افتخار والی گلی کہا کرتے تھے۔اسی گلی میں مرحوم چودھری اسلم آف مہران چودھری اعظم آف زہرہ ریسٹورینٹ چودھری فاروق جاوید ،یامین عباسی، حامد خان رہا کرتے تھے۔
نورین طلعت عروبہ چودھری خورشید بھی پاس ہی رہتے تھے۔اللہ نے مجھے خوشی تھی دل خوشیوں سے باغ باغ ہوا اور کوئی ١٠١ کلو مٹھائی تقسیم کی۔یہاں بھی خوشیوں اور مسرتوں کی بھرمار تھی راستے میں ہم بڑی محتاط ڈرائیونگ کرتے آگے بڑھ رہے تھے اس پاکستان میں آپ گھر میں محفوظ نہیں ہیں سڑک تو سڑک ہے میرے ساتھ متعدد بار حادثے ہوتے ہوتے رہ گئے۔فکر یہی تھی کہ سلامتی سے پہنچا جائے رات سے پہلے پہلے گجرانوالہ داخل ہوا جائے۔ایک بار سردیوں میں گجرات کے قریب ایک بڑے سانحے سے بچت ہوئی تھی ہمارے پیچھے ایک گاڑی لگ گئی جو مندرے سے گجرات تک آگے پیچھے ہوتی رہی۔سخت سردی تھی اور رات کا آخری پہر تھا میں نے بڑی مشکل سے گاڑی پی ایس او پمپ پر روکی دوسری گاڑی میں کچھ نوجوان بیٹھے ہوئے تھے اللہ کا کرم ہوا وہ اپنا کام نہ دکھا سکے شائد انہیں احساس ہو گیا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔سڑک کو محفوظ بنانا انتہائی ضروری ہے اللہ کا شکر ہے کہ موٹر وے پولیس نے حادثات اور مسافروں کو لوٹنے کی وارداتوں پر قابو پا لیا ہے ورنہ پہلے پہلے آئے روز سڑکوں پر گاڑیوں کو کھڑا کر کے لوٹ لیا جاتا تھا۔
ہم کوئی چالیس کلو میٹر نکلے ہوں گے کہ ربیعہ نے ڈیمانڈ کر دی جو چناب پل پر پوری کی گئی۔یہ راستے بھی عجیب ہیں یہ آپ کو اپنے دوست یاد کرا دیتے ہیں پنڈی سے نکلو تو روات میں آپ کو بابو غضنفر یاد آتے ہیں چودھری اسد کو یاد کیا جاتا ہے ۔آگے جائیں تو چکوال موڑ نظر آتا ہے دو لوگ کبھی بھی زہن سے نہیں اترتے اللہ عمر خجر دے ملک محی الدین کو جو جدہ کی شان ہیں اور دوسرے مرحوم انجینئر اسحق جنہوں نے گردوں کی بیماری کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔حجازی دوستوں کو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں۔جدہ کمال شہر تھا ملنے کے ہزار بہانے ہوتے تھے کوئی نہ کوئی تقریب چل رہی ہوتی تھی لوگ پیار کرتے تھے اپنی پرانی عادت ہے کہ رونق لگائے رہتے ہیں۔زندگی کے پردے پر بڑے بڑے فنکار آتے ہیں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں کوئی نغمہ گا کر چلے گئے کوئی مرثیہ پڑھ کر۔انجینئر عزیز کو یاد کرتا ہوں احسن رشید یاد آتے ہیں۔رات ایک تقریب میں احسن رشید کی یاد آئی تو سچ پوچھیں آنکھوں میں آنسو آ گئے ان کی موت پاکستان کو ایک انتہائی نفیس انسان اور سیاست دان سے محروم کر گئی ۔انہیںموت نے تو مارا ہی تھا ان کی رحلت میں ہماری پی ٹی آئی کی اندر کی لڑائی کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔آخری ملاقات میں انہوں نے نامز ملزم کا نام بھی لیا تھا۔گکھڑ گزرا تو دو بندے یاد آئے سابق صدر رفیق تارڑ اور شہباز دین بٹ۔تارڑ صاحب کو زمانہ جانتا ہے لیکن بٹ کو کم ہی لوگ جانتے ہیں یہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی بے وفائیوں کی زندہ علامت ہے یہاں ایک تاجر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
مکہ مکرمہ میں ایک اچھی پوسٹ پر تھا جدہ میں سرور پیلیس میں نت نئے کھانے بنوا کر لے جاتا اوجھڑی گوشت میاں صاحب کو پسند تھی یہ واحد ڈش ہے جو عام ہوٹلوں میں نہیں ملتی۔ویسے سیاست دان بھی کمال کے لوگ ہیں ان کے چاہنے والے الہ دین کے جن کی طرح ہر چیز پلک جھپکتے آن پیش کرتے ہیں۔پچھلے دنوں ارشد انصاری مکہ ہوٹل اشرفیہ والے سٹیج کی زینیت بنے نظر آئے پیارے دوست ڈاکتر سعید الہی انہیں کسی محفل میں سٹیج تک لے گئے اس دوست کی خوبی یہ ہے کہ اس کا ایک ہوٹل جدہ میں ہے کمال کا ٹیسٹ ہے میاں صاحب کی شکم کی آگ یہیں سے بجھتی ہے۔اعجازالحق نے ایک بار بتایا کہ ان کے عمرے کے ٹکٹ بھی ایک پارٹی دیتی ہے۔اس میں میاں صاحبان ہی نہیں کئی اور ہیں وسطی پنجاب کے ایک لیڈر ہیں رانا نذیر یا فقیر نام ہے صاحب جدہ گئے تو مداح نے کہا کہ حضور آئیں آپ کو شاپنگ کرائیں انہوں نے بالی کے شوز خریدنے کی ڈیمانڈ کی جو مزدور کی تین ماہ کی تنخواہ سے آتے ہیں خود ایک پنڈی کا سیاست دان جدہ سے مفت بھری کے بیگ بھر کر لاتا ہے۔افسوس یہ لوگ اس قوم کا مال شیر مادر سمجھ کر پی جاتے ہیں اور اوورسیز پاکستانیوں کی جیبیں بھی کاٹتے ہیں۔
ویسے ارشد خان کی ایک بات یاد آ گئی جو سعودی مسلم لیگ کے صدر تھے کہا کرتے تھے چور سیاست دان بھی ہیں مگر ان ان شکر خوروں کو اللہ نے بیرون ملک میں مقیم بہت سے پاکستانی بھی دے رکھے ہیں جو ان پر فخر سے خرچ کرتے ہیں قائد کے ایک اشارے پر لاکھوں کے چندے دینے والوں سے منڈیاں بھری ہوئی ہیں جو سگے بھائی کو آنہ دونی نہیں دیتے میں نے کمپیئرنگ کی ہے میں نے ان لوگوں کو ہزاروں ریال دیتے دیکھا ہے جن کے اپنے عزیز و اقارب ترس تے تھے نان جویں کے لئے۔گجرانوالہ کا شہباز دین بٹ گکھڑ میں ہے وہ بھی میاں صاحبان کے عشق میں جنرل مشرف دور میں دھر لیا گیا ایک بار ملا تو کہنے لگا یار چودھری صاحب ان لوگوں نے تو مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔میں ان سے ملنے گیا تو آنکھیں پھیر لیں۔ویسے بٹ صاحب کو کون بتائے کہ آنکھیں پھرنے کے لئے ہی ہوتی ہیں اگر ان میں بال بیرینگ اللہ نے ڈالے ہی پھیرنے کے لئے ہیں ورنہ فکس مسطتیلی آنکھیں کیوں نہ لگا دی جاتیں۔
لو جی یہ راہوالی آ گیا یہاں انسانیت کے فراڈ کی قسمیں دیکھیں بے شمار داڑھیاں بے شمار بینر یہ سلیمان کی قلفی ہے۔یہ اصلی یہ پرانی یہ بہت پرانی۔کھوئے والی قلفی ہے یار یہ تو کوئی بھی آلو باٹا بنا سکتا ہے مگر ان ٹھگوں کو دیکھئے ہر کوئی اپنے آپ کو سلیمان کی قلفی بنا کر پیش کرتا ہے گویا سلیمان کوئی آسمان سے اترا ہوا کاریگر تھا۔یار قلفی کسی جگہ بھی رکو اور کھا لو میں نے احتجاجا ان فراڈیوں کے پاس رکنا چھوڑ دیا ہے۔اسی طرح شہر میں چلے جائیں سلیمان کی مٹھائیاں اب سلمان کی مٹھائیاں والے کو جعلی قرار دے رہے ہیں اور وہ دوسروں کو۔حاجی اللہ رکھے کے تکے قیام پاکستان کے وقت سے مشہور ہیں اب کوئی اصلی دکان نظر نہیں آتی سیالکوٹیوں کی مٹھائی کی دکانیں بھی اسی طرح جگہ جگہ اصلی اصلی کہہ رہی ہیں۔اب اس دوڑ میں ہمارے زمانے کے جالندھر سویٹ ہائوس کا کوئی نام و نشان نہیں۔مجھے زندگی میں وہ شکر پورے کبھی نہیں بھولتے جو والد صاحب کے بی ڈی ممبر بننے پر گھر آ کر حلوائی نے نکالے تھے خاکی لفافوں میں بند میں اس مٹھائی کو نیفے میں اڑس کر ماسٹر صاحب اور مانیٹر کے لئے لے جاتا ایک جس نے پڑھانا تھا دوسرا جس نے شکائیتیں لگانی تھیں۔
نبیل ہمیں زید بلاک کی آٹھ نمبر گلی کے ایک گھر میں لے گیا جس کاکرایہ تیس ہزار روپے تھے حیران کن حد تک مہنگا مکان پانچ مرلے سے زاید نہ تھا پراپرٹی ڈیلروں نے کرائے آسمان تک ہنچا دئے ہیں ان کا فراڈ ملاحظہ ہو دو چار ماہ بعد کرائے دار کے پاس بندہ بھیج دیتے ہیں کہ جی یہ مکان ہم نے خرید لیا ہے خالی کریں مراد یہ کہ اب نئے کرائے دار سے مزید پیسے بٹوریں قانون کرائے داری میں پتہ نہیں کرائے دار کے بھی کوئی حقوق ہیں یا نہیں۔
اگلے روز صبح سویرے ہسپتال روانگی ہوئی اللہ نے جمعے کے دن بے بی گرل عنائت کی میڈ کیئر ہسپتال منیر چوک کے پاس ہے اچھا ہسپتال اور عملہ بھی کمال کا ہے۔دو دن کے بعد عنایا ہمیں عنائت کر دی گئی کوئی ایک دن سانس کی کمی کا شکار رہی۔اتوار والے دن بچوں نے بلکہ پھوپھو نے کمرہ سجایا اور عنایا ہمارے گھر کی زینت بنی۔ادھر عنایا کے ماموں ممانی نانا سارے اس خوشی میں بھرپور شریک رہے۔ہسپتال میں میں بھی ون سونے کھانے کھلائے گئے اور یہاں گھر بھی تحائف کی بارش کر دی۔ماموں کتنے پیار کرنے والے ہوتے ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں اللہ اکرم صاحب کو لمبی عمر دے ڈائلیسز کرا رہے ہیں۔کافی کمزور ہو چکے ہیں۔بلال ۔حمزہ اور طلحہ عنایا کے ماموں عبیر عبرش سمیت ہماری خوشیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔اللہ انہیں بھی خوشیاں دے۔
والدین کی قبروں پر حاضری دینے پہنچا تو دیکھ کر دلی دکھ ہوا والدہ صاحبہ کی قبر کا شناختہ ٹوٹ چکا ہے والد صاحب کی قبر بیٹھ رہی ہے یہ پرانا قبرستان جس کی کوئی دیکھ بھال نہیں ہو رہی اب تو پرانی قبروں کو نشانے پے رکھ کر ملازمین جگہ فروخت کر دیتے ہیں۔پارنے مردے جن کی ہڈیاں کہیں ملتی ہیں اسے صاف کر کے لوگ قبریں بنا رہے ہیں مرور ایام سے مٹی جو قبروں پر چڑھائی گئی اب اسے ہٹا کر مردے دفن کئے جا رہے ہیں ڈبل سٹوری سمجھ لیں۔جنت المعلا میں سعودیوں نے ایک کام کیا ہے وہ ایک لمبی خندق میں مردے رکھ کر ان کے اوپر کیمیکل ڈالتے ہیں ایک عرصے بعد ہڈیاں نکال کر وہ قبریں خالی کر لی جاتی ہیں ہڈیاں ایک بہت بڑی ٹینکی نما جگہ میں ڈال دی جاتی ہیں۔پتہ نہیں یہ تجویز بڑے قبرستان میں سوچی جا سکتی ہے یا نہیں۔ساتھ ہی میں خالد ہمایوں شہید کی قبر ہے گوہر زمان شہید یہ لوگ اپنے ہی طے کردہ میدان جنگ میں اپنوں کے ہاتھوں ہی مارے گئے۔یہ شہر کے تگڑے لوگ تھے انہیں یہاں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہموت حقیقت ہے اور سب کو آنی ہے۔بڑا قبرستان بڑی جائے عبرت ہے۔والد صاحب کی قبر کے پاس ہمارے سیاسی استاد سعید بھٹی کی قبر ہے یہ وہ شخص تھا جس کی دوستیاں جاوید ہاشمی اور لیاقت بلوچ سے تھیں بڑا فلاسفر شخص تھا بس ارائیں کشمیری دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مجھے سید طاہر شہباز بھی یاد آئے جو آج اللہ کے کرم سے پاکستان کے وفاقی محتسب اعلی بنے ہیں۔ہم سعید بھٹی کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔طاہر شہباز کا گھر جناح روڈ چوک کے قریب تھا اللہ تعالی ہمارے اس باھئی کو مزید ترقی دے اور اس ملک کے پسے ہوئے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے میں مدد دے آمین۔
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم گجرانوالہ جائیں اور اپنے پی ٹی آئی کے دوستوں سے نہ ملیں میرے فیس بک اسٹیٹس کو پڑھ کر نوجوان مبین اشرف کھوکھر نے کہا کہ آپ گجرانوالہ آ رہے ہیں تو ہمیں ضرور ملیں یہ اس کا پیار تھا دوسرے روز ڈنر پر لینے پیپلز کالونی پہنچ گیا۔یہ دعوت چودھری محمد علی کی طرف سے تھی جو جناح روڈ پر ہی دھلے چوک کے قریب رہتے ہیں ہم نے ان کے ڈیرے کا وزٹ کیا رات کو نو بجے کے قریب بھی کچھ لوگ موجود تھے یہیں نوجوان مدثر سندھو سے ملاقات ہوئی جو سنٹرل پنجاب کا پیج دیکھتے ہیں انہوں نے ہمارا انٹرویو بھی کیا ۔سچ پوچھیں گجرانوالہ شہر اب بھی نون لیگیوں کا گڑھ ہے خرم دستگیر کو ہرانا آسان نہیں لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اب نوجوان خون کی ضرورت ہے ایس اے حمید بہت اچھے ہیں مگر ان کا وقت گزر چکا ہے۔میرے محترم ہیں پارٹی میں انکے لئے اور بھی مناسب جگہیں ہیں مگر میری ذاتی رائے ہے وہ کشمیری بمقابلہ ارائیں ہونے دیں البتہ رضا حمید کو صوبائی سیٹ کے لئے کوشش کریں اور وہ بھی طارق گجر کے حلقے سے ہٹ کر۔گجرانوالہ میں برادری ازم بڑی اہمیت رکھتا کشمیری کبھی غیر کشمیری کو ووٹ نہیں دیتے اور غلام دستگیر خان سے اب تک ان کا ووٹ کبھی بکھرا نہیں سوائے شیخ منصور کے دور میں جب شہر کی ساری برادریوں نے غلام دستگیر کو ہرایا تھا۔خرم دستگیر گرچہ تجارتی وزارت میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں اور ناکامی کا سہرہ ان کے بڑے میاں کے سر ہے جو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت درامدی بل بڑھا رہے ہیں، شہر میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھانے میں ان کا کردار لائق ستائیش ہے۔شہر کوئی سڑک کچی نہیں رہی البتہ گجرانوالہ شہر میں صفائی کا ناقص انتظام ہے بارش کے بعد شہر کی کئی سڑکیں وینیس کا روپ دھار لیتی ہیں اس پر توجہدیں اور البراک کو ٹھیکہ دے دیں ورنہ شہر کو صاف کرنا نا ممکن ہے۔
چودھری محمد علی نے رات کو کراچی بریانی میں پر تکلف دعوت کا بندوبست کیا دس بارہ دوست اور بھی تھے بڑی تفصیلی بات چیت ہوئے برادر نعیم الحق اور چودھری سرور کے دورے کی تفصیلات بتائیں اگلے رو پاکستان تحریک انصاف کے ہراول دستے میں شامل ہونے والے رضوان چیمہ مبین کے ساتھ آئے اور شہر کے بہترین ہوٹل میں لے گئے وہاں گجرانوالہ کی بہترین ڈشوں سے تواضع کی۔رضوان چیمہ اسلامی جمیعت طلبہ کے رکن رہے ہیں اور ان کا اپنے حلقے میں ایک مقام ہے جماعت اسلامی نے ان کی سیٹ نون کے حق میں دست بردار کی تھی جس سے وہ رنجیدہ ہوئے اور پی ٹی آئی کو اپنی سیاست کا مرکز بنایا۔چیمہ صاحب پارٹی کے لئے اثاثہ بن سکتے ہیں اگر ان کا ہاتھ پکڑ کر آگے چلایا گیا۔شہر میں اب پہلے والے لوگ خاموش دکھائی دئیے رانا نعیم ۔عنصر نت،اور پرانے ساتھی کہیں نظر نہیں آئے اور نہ ہی اخبارات میں دکھائی دئے البتہ عمران یوسف گجر سوشل میڈیا میں متحرک نطر آتے ہیں عثمان سعید بسرا اسلام آباد میں متحرک ہیں۔اگلے روز چودھری طارق گجر کے ڈیرے کا دورہ کیا وہاں کاشف ملک جسے ہاتھوں سے کھیلایا تھا موجود تھے چودھری طارق گجر گرجاکھ ایرئے کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں ان کے بھائی سعید گجر ضلع کے سینئر نائب صدر ہیں۔گجروں کے اس گھرانے کے آنے سے شہر میں پی ٹی آئی میں دم خم نظر آتا ہے۔ڈنڈی پٹی تگڑے گجر بڑی آسانی سے پومیوں کا مقابلہ کر نے کی سکت رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ بھی کیا گیا وہ خان صاحب کے دورے کے دوران علی اشرف مغل کے ہاں رکنے پر نالاں تھے ۔ان کا ضافہ شہر میں پارٹی کا وزن کا ہے اسی طرح ارقم خان کی جائیننگ بہت اچھا قدم ہے۔سوپر ایشیا والے سیاست سے زیادہ کاروبار پر توجہ دینے والے لوگ ہیں میں سمجھتا ہوں انہیں یہ جگہ کسی اور کے لئے خالی کر دینی چاہئے۔
سفر وسیلہ ء ظفر ہوتا ہے ہم نے اس سفر میں پرانے محلے کی سیر کی چا چا اسمعیل اب اس دنیا میں نہیں رہے چالیس سال تک اذان دینے والے چاچے کا اظہار افسوس کیا اپنے گھر گیا کھانا وہیں کھایا ماسی جی کی عیادت کی بھائی جان کو جی منگنولیا دیکھا خالہ جیراں سے ملاقات ہوئی سعید ،مصطفی کویت سے آئے ہوئے ہیں ان سے ملا۔آٹھ دن کی ریاضت کے بعد کل ہی پہنچا ہوں۔سلامت باشد گجرانوالہ