کسی بھی علاقہ میں امن و امان اور قانون کی بالا دستی اس علاقے کے مکینوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے محکمہ پولیس کی مرہون منت ہوتی ہے۔ پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں محکمہ پولیس سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب میں تو نجانے کتنی قسم کی پولیس موجود ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں امن و امان سے لیکر قتل و غارت تک کی تحقیقات و تفتیش کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے۔ ویسے تو پولیس کے قوانین عوام کے لیے یکساں ہوتے ہیں مگر پنجاب میں اس محکمے نے اپنی مرضی سے ان قوانین میں تقسیم کی ہوئی ہے۔
دوران سفر یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر قسم کی پولیس کے ملازمین پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی بجائے ہمیشہ ڈنڈے کے زور پر لفٹ لے کر سفر کرتے ہیں اور اگر پبلک ٹرانسپورٹ پر خدانخواستہ سفر کرنا پڑے تو کرایہ دینا جرم بلکہ گناہ سمجھتے ہیں۔ جہاں تک تھانہ کلچر ہے اگر سیاستدان یا کوئی نامور ہستی تھانہ میں پہنچے تو بڑے اہتمام سے استقبال کیا جاتا ہے اور مہمان نوازی کی جاتی ہے۔اگر کوئی سائل جائے تو اس کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا کرے؟ نہ بیٹھنے کے لیے کوئی معقول جگہ یا انتظام نہ ہی مناسب رہنمائی۔ پولیس والے تو اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ وہ جس شخص سے بات کررہے ہیں وہ کس سکیل کا ہے؟ نان گزیٹڈ سپاہی گریڈ ون گزٹیڈ آفیسر کو کچھ بھی نہیں سمجھتا۔
ہم اکثر پولیس کے متعلق الٹی سیدھی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ جس طرح موسم گرما میں گرمی اور پاکستاں میں لوڈشیڈنگ کا عین الیقین ہے اسی طرح عوام کو پولیس کے محکمہ کا سب سے زیادہ رشوت خور ہونے کا یقین ہے۔ یہ واحد محکمہ ہے جہاں کوئی بھی آسان سے آسان کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا مگر میرا یقین ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ یقینا اس محکمہ بھی اللہ کے نیک بندے موجود ہیں لیکن پھر بھی ایک دن تجربہ کرنے کی غرض سے میں نے یہ سوچا کیوں نا آج عوام کی شکایت پر پولیس ڈیپارٹمنٹ کا جائزہ لیا جائے۔
اس غرض سے سب سے پہلے شہر کے ایک لوکل تھانے کارخ کیا۔ جہاں میں نے ایک قیدی سے ملاقات کرنے کے لیے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار سے کہا۔ جس نے جواب میں کہا کہ توں مینوں راضی کردے تے میں تینوں راضی کردینا آں’ یعنی تو مجھے راضی کردے میں تم کو راضی کردوں گا۔ پہلے تو میں اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہا پھر میں نے تھوڑا سے غور کیا تو سمجھ گیا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے اس کو چائے پانی کی مد میں ایک نوٹ تھمایا اور اس نے ملاقات کرادی۔ ملاقات میں کس سے کرتا بس میں تو پولیس کی حقیقت دیکھنا چاہ رہا تھا کہ جو عوام کہتی ہے وہ سچ ہے بھی کہ نہیں؟
Jail
اب جو میں واقعہ لکھ رہا ہوں وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ رمضان سے چند دینے پہلے میرا ایک دوست کسی کیس میں پکڑا گیا پھر اس کو جیل بھیج دیا گیا ۔ اس کے بعد رمضان میں ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ پیشی پر تحصیل کورٹ آرہا ہے۔ میں اس سے ملاقات کرنے تحصیل کورٹس چلا گیا۔ وہاں دیکھا تو بہت سے دوست احباب اور اس کے عزیز و اقارب بھی ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ابھی اس دوست سے سلام دعا ہی کی تھی کہ ایک نوجوان پولیس والا آیا اور برملا اعلان کیا کہ”تُسی اپنے ویر نو ملو پَرسانو بھی خوش کرو اور جنے تُسی بندے جے اُونا ساڈا حصہ وی دیو”یعنی آپ اپنے بھائی سے ملیں مگر ہمیں بھی خوش کریں اور ساتھ یہ بھی حکم صادر کر دیا کہ جتنے تم افراد ہو اس حساب سے ہمارا حصہ بھی دے دیں۔
مجھے اب عوام کی بات یاد آنے لگی کے واقعی پولیس کے ہر کام میں (قائداعظم) روپیہ چلتا ہے۔ پھر ایک پولیس والے نے آکر آرڈر دیا کہ میرے لیے جاز کا ایک کارڈ لاکر دو یعنی موبائل کا 100 والا کارڈ۔ پھر کیا دیکھتے ہی دیکھتے جتنے پولیس والے قیدیوں کی گاڑی کے ساتھ آئے تھے سب نے سو والا ایک ایک کارڈ وصول کیا۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ رمضان المبارک کے ماہ میں تو شیطان قید ہوتا ہے پھر ان جیسے شیطان کیسے آزاد ہیں ؟ اور مزے کی بات یہ کہ تمام پولیس والے بالکل نوجوان تھے۔ ان کو بالکل بھی شرم نہیں آئی کہ ہم روزے سے کیا کر رہے ہیں اور بڑے تکبرانہ انداز میں اپنے روزدار ہونے کا اظہار اس طرح کر رہے تھے جیسے روزہ رکھ کر ہم پر احسان کیا ہے۔
گورنمنٹ کی ڈیوٹی کررہے ہو تنخواہ بیس ہزار سے کم نہیں اور پھر ان کی حرکت فقیروں سے بھی بدتر۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ اب جو نیو جنریشن ہے وہ رشوت جیسی لعنت سے نفرت کرتی ہوگی۔ آج کل نوجوان ہی ملک کا سرمایہ ہیں مگر یہ سرمایہ ہی دو نمبر ہو جائے تو پھر ایسے ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اور شاید وہ بھی مجبور ہوں کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ پولیس میں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے میرٹ کے لوازمات میں سر فہرست قائد اعظم ہوتا ہے۔ اور یہ راہ اختیار کیے بغیر اس قائد اعظم کو واپس گھر کیسے لایا جا سکتا ہے؟
اصل میں ہمارے پولیس نظام میں بہت سے قباحتیں ہیں۔ سب سے پہلے تو پاکستان میں آج بھی 1861 کا نو آبادیاتی دور کا پولیس آرڈر چل رہا ہے۔ جس سے پاکستانی عوام کے علاوہ تمام مراعات یافتہ طبقہ مطمئن ہے۔ عوام کو پولیس مراعات دے یا نہ دے مگر ہمارے سیاستدان اور امیر طبقہ لوگوں کو خوب مراعات دیتے ہیں۔ پاکستان میں پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہونے کے کئی اسباب سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں قانون کے نفاذ اور مختلف نوعیت کے حفاظتی اقدام کے لیے پولیس کے ساتھ ساتھ دیگر وفاقی اور صوبائی ایجنسیاں بھی قائم ہیں۔ جیسے سندھ کے شہروں میں جرائم پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو تعینات کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اور پختونخوا میں ایف سی کو پولیس کے اختیارات دئیے گئے ہیں۔ جسکی وجہ سے ان میں اختیارات کے استعمال کے حوالے سے اکثر تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے اس میں ہونے والی تقرریوں اور تعیناتیوں میں میرٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پولیس کے محکمہ میں تعیناتیوں کا بھی کوئی اصول و ضابطہ نہیں ہے۔ میرٹ پر آنے والوں کو اکثر سیاسی سفارش نہ ہونے کی بنا پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اور سفارشی لوگوں کو جو میرٹ پر بھی نہیں ہوتے ان کو بخوشی بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ پولیس کی اس صورتحال کو بہتر کیسے کیا جائے تو اس سلسلے میں چند گزارشات بھی موجود ہیں پولیس کو مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے۔ آئی جی اور ڈی آئی جی صاحبان کا تقرر فیڈرل سروس کمیشن کے ذریعہ ہو۔
DSP سے SSP رینک کے افسران کی تقرری صوبائی سروس کمیشن کے تحت ہو۔ جب کہ سپاہی سے انسپکٹر تک کے اہلکاروں کا تقرر ضلعی سروس کمیشن کے ذریعہ کیا جائے۔ پولیس کے لیے تقرری میں میرٹ اور شفافیت کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا جائے، کیونکہ پولیس کا محکمہ ملک میں ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ انھیں جدید اسلحہ اور گاڑیاں مہیا کی جائیں تا کہ وہ زیادہ فعالیت کے ساتھ جرائم کے ساتھ نبرد آزماء ہو سکے۔