تحریر : عبد الرزاق ہر شخص کا کوئی نہ کوئی گول ہے چھوٹا یا بڑا جس کو پورا کرنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے لہٰذاآ پ کے مقصد کا تعین واضح ہونا چاہیے۔خواہش کی نوعیت شدید ہونی چاہیے۔ ارادہ پختہ ہونا چاہیے ۔اپنی ذات پر اعتماد ہونا چاہیے ۔ زندگی کے سفر میں مواقع ملتے رہتے ہیں دروازے کھلتے رہتے ہیں ۔زندگی ہا رجانے سے خراب نہیں ہوتی میدان چھوڑ جانے سے خراب ہوتی ہے خود اعتمادی کی ڈورہاتھ میں تھام کے رکھو گے توکامیابی کی پتنگ آسمان کی بلندیوں کو چھو لے گی۔ خود اعتمادی کامیابی کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں اور مشکلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے ۔خود اعتماد انسان جو سوچتا ہے جو اس کو اچھا لگتا ہے وہی کرتا ہے چاہے لوگ اس کا مذاق ہی کیوں نہ اڑائیں ، خود اعتماد انسان رسک لینا جانتا ہے جبکہ خود اعتمادی سے محروم شخص کی زندگی کو دوسرے لوگ ڈرائیو کرتے ہیں وہ وہی کرتا ہے جو دوسرے لوگ چاہتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو پسند ہوتا ہے ۔ احساس کمتری کا شکار لوگ اپنی غلطیوں کو چھپا لیتے ہیں ۔ رسک لینے سے بھی گھبراتے ہیں ۔ بس لگی بندھی زندگی ہی بسر کرتے ہیں ۔ دوسروں کی تعریف کرنے میں بخیل ہوتے ہیں ، ۔ خود اعتمادی تومایوسی ،ناکامی اور نامرادی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن ہے۔
اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں۔اپنی سوچ کو مثبت سمت دیں،سماج کے لیے خوشی کا باعث بنیں۔ ۔ کچھ سیکھنے کی بھوک علم کے حصول کا سبب بنتی ہے اور علم معاشی حالت کو بہترکرتا ہے جس سے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے ۔۔کامیابی کا سفر طے کرتے ہوے ایک بات ذہن نشین رہے آپ ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں نہیں کر سکتے اس لیے ہمیشہ ان چیزوں پر فوکس کرو جن پرآپ دسترس حاصل کر سکتے ہیں اگر آپ نے ان چیزوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جو آپ کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہیں اور وہ صرف قبضہ قدرت میں ہیں تو آپ اپنا پوٹینشل ضائع کرو گے ۔اچھی عادات ترقی کے سفر کو آسان بنا دیتی ہیں۔ خود کو اپنے خواب کا پیچھا کرنے کی تحریک دیتے رہیں کیونکہ یہ تحریک آپ کے سفر کو شروع کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور ہر اچھی عادت آپ کو آپ کی منزل سے ایک درجہ قریب کر دیتی ہے ۔ اس لیے اپنی ذات میں اچھی عادات کا اضافہ کرتے جاو اور خرابیوں کو چن چن کر ختم کرتے جاو ۔ناکامیاں مثل سمندر ہیں کوئی اس کی تہہ میں اتر کر قیمتی موتی اکھٹے کر لیتا ہے اور کوئی اس کی لہروں کی نذر ہو کر ڈوب جاتا ہے۔
ناکامیاں تکلیف دہ ہوتی ہیں لیکن جب کچھ سالوں بعدایک ہی وجود میں جمع ہو جاتی ہیں تو تجربات کا روپ دھار لیتی ہیں اور یہ تجربات کامیابی کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ بلند خیالات ایک ایسی عمارت تعمیر کرتے ہیں جس میں کامیابی قیام کرتی ہے ۔کامیابی کے راستہ میں مشکلات سینہ تان کر کھڑی ہوتی ہیں ان کو شکست دے کر ہی منزل تک رسائی مل سکتی ہے۔ آپ ہمیشہ سازگار حالات کا انتظار کرتے رہتے ہو اور لوگ آپ سے بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔ ابھی اور اسی وقت اٹھو اور جو سوچ رکھا ہے جس کی زندگی سے طلب ہے اس کے لیے کوشش شروع کر دو حالات خودبخود ہی ٹھیک ہو جائیں گے ۔ اچھا اور برا وقت تو ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے ۔ اس سے گھبراتے کیوں ہو۔ اب حالات برے ہیں تو اچھے بھی ہو ہی جائیں گے بس صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھو ۔ یہ زندگی ایک ایسی رقاصہ ہے جو غموں اور خوشیوں کے درمیان محو رقص رہتی ہے کبھی مسرتوں کی بارات کا روپ دھار لیتی ہے اور کبھی دکھوں کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور یہی زندگی کا حسن ہے۔
Life
ہر شخص کی زندگی میں اگر مگر اور کاش کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر وہ انھیں جمع کرنا شروع کر دے تو اک ٹرک بھر جائے تو تمہارے لیے بہتر ہے اس جمع شدہ اگر مگر کاش کو کسی ندی نالے میں پھینک آواور پھر اک نئی زندگی کی شروعات کروجس میں اگر،مگر،کاش کی گنجائش نہ ہو ۔اگر تم لوگوں سے عزت کروانا چاہتے ہو تو ان سے زیادہ ٹیلنٹڈ بنو۔لوگ صرف اسے عزت دیتے ہیں جس کا ٹیلنٹ ان سے زیادہ ہو ۔ مطلب جو ہنر اور دولت میں ان سے بڑھ کر ہو ۔جو علم زمانے کی تلخیوں کے بطن سے جنم لیتا ہے اور حادثات زمانہ میں پرورش پاتا ہے درسگاہوں اور کتابوں سے حاصل کیے ہوے علم سے معتبر ہوتا ہے ۔جو تجربات گردش زمانہ کی دھول میں رسوا ہو کر کتاب زندگی میں درج ہوتے ہیں وہ کسی استدلال کے محتاج نہیں ہوتے ۔ہر انسان کو زندگی میں متعدد دفعہ ایسے مواقع ملتے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہ زندگی سنوار سکتا ہے اور اپنی زندگی کے شب و روز میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے لیکن ہم میں سے اکثریتی تعداد حوصلہ اور رسک لینے کی طاقت سے محروم ہوتی ہے جس کی وجہ سے خوش بختی کے کھلے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔
کامیابیوں ،کامرانیوں اور فتوحات کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی کوشش نے بلند حوصلہ کا تاج پہنا ہوا ہو اور آپ کی ذات میں ناممکنات کو ممکنات میں بدل دینے کے لیے جذبہ کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجود ہو تبھی انمول تخلیق کے افق استوار ہوتے ہیں جن پر قومیں فخر کرتی ہیں ۔کبھی کبھی یہ سوچ کر انسان مایوسی کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے کہ مجھے کامیابی کے جس افق کو چھو لینا چاہیے تھا میں اس سے کوسوں دور ہوں۔
مجھ سے کم صلاحیت کے حامل افراد زندگی کی دوڑ میں مجھ سے آگے ہیں اور میں ان کے مقابلے میں بہت پیچھے ہوں اس بات سے مایوس ہونے کی بجائے ان وجوہات کی کھوج میں جٹ جائیے جن کی وجہ سے آپ کم اہلیت افراد سے بھی پیچھے ہیں جب آپ ان وجوہات کی تلاش میں کامیاب ہو جائیں تو ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا قلع قمع کریں تاکہ آپ کی ذات میں موجود یہ خامیاں ختم ہو جائیں ۔ تاریخ کی کتاب میں ہزاروں ایسے افراد کی داستانیں رقم ہیں جنہوں نے مشکل ترین حالات اور لوگوں کی بے پناہ مخالفت اور مخاصمت کے باوجود کامیابی سمیٹی ۔بس آپ کو اپنی ذات کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے کوشش کا دیا جلانا ہے پھر آپ کا مقدر اجالے ہی اجالے ہیں ۔ بقول شاعر دیر تھی بس دیا جلانے کی روشنی کھا گئی اندھیروں کو