تحریر: وقار النساء مرغے کی آذان کے ساتھ ھی کنیز فاطمہ کی صبح ھو جاتی تقریبا گاؤن کے ہر گھر مین لالٹین کی مدھم لو تھر تھرانے لگتی اور سب نئی صبح مين اپنے کام کاج مین لگ جاتے منہ اندھيرے ہی ہر گھر سے جھاڑو کی سٹرپٹر کی آواز سنائی دینے لگتی اتنی دیر میں کنیز فاطمہ کا خاوند بھينس کا دودھ دوہ کر فارغ ہو جاتا تو وہ مال مویشوں کی کھرلیاں اور جگہ صاف کرتی اسکا خاوند جانوروں کو چارہ ڈالتا اتنی دير میں وہ دودھ بلو ليتی اور ہر گھر سے مدھانی کی چاٹی میں گونجتی آواز ميٹھے سروں میں سنائی دیتی پو پھٹنے سے پہلے چائے کا سادہ پیا لہ پی کر کھیتوں کی طرف روانہ ہو جاتے کٹائی کا موسم ہو یا بوائی کا دونوں صورتوں میں کھيیتوں میں جانا ضروری ہوتا۔
دن کے نو بجے تک عورتيں گھر آکر دوپّہر کی روٹی پکانے لگ جاتيں مٹی کے تندور ميں لکڑی کے سرخ شعلے بلند ہوتے تندور تپا کر روٹی لگائی جاتی کيونکہ ان کی صبح بہت جلد ہو جاتی اسی لئے کھانے سےفراغت پاکر مشينی اندازميں پھر گھر کے کام ميں جت جاتيں کنيز فاطمہ کا گھر دو کمروں پر مشتمل تھا ایک چھوٹا کمرہ جس ميں ایک طرف جادر کی پرانی پيٹی رکھی تھی اس پر کچھ کپڑون کے ٹرنک رکھے تھے کونے مين گندم کے دانوں والا بڑا سا مٹی کا بھڑولا رکھاتھا ديوار کے ساتھ چار چاپائياں بچھی تھيں نيم چھتے پر اس نے بڑے ديگچے اور دوسرے برتن ترتيب سے رکھے تھے ساتھ والا کمرہ بيٹھک کا کام ديتا تھا سرخ پایوں والی چاپائیون پر سفيد چادريں بچھی تھيں کروشيے کی ليس سجاوٹ کے لئے لگی تھيں دو کرسياں اور ايک چھوٹی ميز اسی کمرے ميں تھی جھاڑ پونچھ کے بعد اس کمرے کا دروازہ بند کردیا جاتا وہ اس کمرے اور اپنی سفيد چادروں کو دھول مٹی سے بچانے کے لئے بند کر ديتی کنيز فاطمہ اپنے بچوں کو بتاتی کہ ان چادروں پر اس نے کڑھائی کی اور کروشيے کی ليس بڑی محنت سے بنا کر لگائی دو چادرين اس کے جہيز کی تھيں جن پر اس کے ماں کے ھاتھ کی کڑھائی تھی۔
جاڑوں کی سردی ہو یا گرميوں کی چلچلاتی دھوپ وہ صحن ميں لگے پيپل کی چھاؤں مين بان کی کھردری چارپائی پر ہی بيٹھتی بچے چھوٹے کمرے ميں تو بيٹھتے ليکن سفيد چادروں پر نہيں آس پڑوس سے آنے والے بھی پيپل کی چھاؤں ميں بچھی چارپائی پر بيٹھتے سرديوں ميں چارپائی دھوپ مين کر لی جاتی اپنی ساری جوانی اسنے پیپل کی چھاؤں ميں گزاری اپنی سفيد چادروں کو دھو کر چا رپايون پر ڈال ديتی وقت آگے بڑھا ! بچے بڑے ہو کر اپنے گھروں کے ہو گئے !! زندگی کے سفر ميں اسکا شريک حيات اس سے بچھڑ چکا تھا اس کا بيٹا وحید مقامی سکول ميں استاد تھا گاؤں کے لوگ عزت کرتے اور شاگرد کام مين مدد کروا ديتے گھر مين ایک اور کمرے کا اضافہ وحيد نے اپنی شادی سے پہلے کرديا تھا اس کمرے کو اب بيٹھک کے طور پر استعمال کيا جاتا تھا۔
Allah
جہاں وحيد کی بيوی رخسانہ کا جہيز کا صوفہ اور کھانے کی ميزرکھی گئی تھی اسی کمرے کی ایک ديوار کے ساتھ ڈبل بيڈ بھی رکھا تھا ليکن اس کمرے کو سونے کے لئے استعمال نہيں کیا جاتا تھا وحيد اور رخسانہ کنيز فاطمہ والا سفيد چادروں والا کمرہ استعمال کرتے جب چھوٹے بچے ان پر ننگے پاؤں چڑھتے تو اس کی جان پر بن جاتی کچھ کہتی تو بہو برا مان جاتی اس لئے خاموش رہتی ! بہو کے آگے پيچھے ہوتے ہی اپنی جھکی کمر کے ساتھ کمرے مين جاتی جلدی سے چادرين اتارتی اور صحن ميں لگے نلکے سے بمشکل پانی نکالتی اور دھو کر دھوپ ميں پھيلا ديتی ! اللہ کا شکر کرتی کہ وقت کے ساتھ سہولت کے لئے وحيد نے پانی کا نلکا لگوا ليا تھا ورنہ وہ تو اپنی جوانی ميں گاؤن کے کنوئیں سے گھڑے بھر کر لاتی تھی اور کپّڑے دھويا کرتی تھی۔
کوشش کرتی کہ بہو کے آنے سے پہلے انکو بچھا دے سرديوں کا موسم تھا کچھ دنوں سے اس کی طبيعت ٹھيک نہيں تھی کھانسی نے گويا جان عذاب کر رکھی تھی بخار بھی کتنے ہی دنوں سے کم نہين ہو رھا تھا وحيد ڈسپنسری سے دوا بھی لے آیا تھا ليکن کوئی افاقہ نہ ہوا سارا دن دھوپ ميں چارپائی پر ليٹی رہتی رات بچوں کے ساتھ چھوٹے کمرے ميں گزارتی سفيد چادر پر ليٹنا شائد اس کی قسمت ميں نہيں تھا اب تو بچوں کو بھی منع نہ کر سکتی تھی کہ وہ چادريں ميلی نہ کريں جھريوں زدہ چہرے پر آنسو ڈھلک آتے ليکن وہ خاموش رہتی۔
White Sheets
آخر وہ وقت آ پہنچا جس نے ہر دکھ سے نجات ديدی موت بھی سيانی نکلی سرديون کے موسم ميں ميت اسی صحن ميں رکھی گئی جہاں اس نے زندگی گزاردی ساری زندگی دھوپ اور سردی مين صحن مين وقت گزار کر سفيد چادروں کی حفاظت کرتی رہی آخر کار سفيد چادر اس کا مقدر ہو ہی گئی فرق تھا تو اتنا کہ وہ کڑھائی والی ليس لگی چادر تھی اور یہ سفيد بے داغ لٹھے کی چادر۔