کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اْن کی قوم ایک ہی زبان بولتی تھی تاہم کچھ عرصے بعد انسان نے ایک مینار بنا کر آسمان تک پہنچنے کی کوشش کی جسے مینارِ بابل کہا جاتا ہے۔ یہ سمیری تہذیب کی قدیم ترین یادگاروں میں سے سب سے اونچی عمارت تھی۔ اس عمارت کو شینار (موجودہ عراق) کے میدانی علاقہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور پتھر کی بجائے پختہ اینٹیں لگائی گئی تھیں۔ مخروطی شکل کی یہ سات منزلہ عمارت تین سو یا تین ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس مینار کی بنیادیں سب سے پہلے ایک یورپین نے 1914ء میں دریافت کیں لیکن مدت تعمیر کا اندازہ پھر بھی نہ ہوسکا۔
بعض روایات کے مطابق یہ برج یا مینار حضرت نوح علیہ السلام کے بعد کی نسلوں نے بنایا تھا اور اس زمانے کا بادشاہ اس کے ذریعے آسمان تک پہنچنا چاہتا تھا۔ خدا نے اس گستاخی کی سزا یہ دی کہ مینار کی مختلف منزلوں پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کر دیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ چونکہ برج یا مینار کی منزلیں سات تھیں اور دنیا کے براعظم بھی سات ہیں، یوں ہر منزل پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کرکے انہیں ایک طوفان کے ذریعے دُنیا کے سات مختلف براعظموں میں اٹھا کر پھینک دیا گیا۔ تاہم جدید ماہرین لسانیت کا خیال ہے کہ زبانوں میں عقل کو چکرا دینے والاصوتی اور نحوی تنوع ہزاروں سال کے دوران رونما ہوا جبکہ چند ماہرین لسانیت ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اس تمام تر رنگا رنگی یا انتشار کے باوجود ساری کی ساری زبانوں کے ڈانڈے ایک ہی زبان سے ملتے ہیں۔ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء بتاتا ہے کہ انسان بن مانس (بندر)کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔
اس نظریہ کے حامی ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ حیات کی ابتداء کیسے ہوئی۔ اس کے برعکس قرآنی نظریئے کے مطابق ابتداء میں تمام انسان ایک اُمت اور ایک زبان تھے، پھر وہ مختلف ہو گئے یعنی اللہ نے اُمتِ واحدہ میں سے مختلف اُمتیں بنا کر انہیں جُدا جُدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے انسان کی نسل کو آگے بڑھایا مگر تمام انسانوں کی شکلیں آدم جیسی نہیں بنائیں۔ قد و قامت، رنگ، آواز، عقل وغیرہ سب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں قرآن کریم کی سورة الروم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کیلئے نشانیاں ہیں۔” یہ تو ہر صاحبِ عقل جانتا ہے کہ اگر سب انسانوں کی شکلیں ایک جیسی ہوتیں تو پھر حسن و جمال کا کوئی قصہ کہانی نہ ہوتی۔ اسی طرح اگر پوری دْنیا کا موسم ایک ہوتا اور پوری زمین ایک جیسی ہوتی، سب لوگوں کی عقل اور سمجھ بوجھ ایک جیسی ہوتی تو کوئی علمی اختلاف نہ ہوتا بلکہ یوں کہہ لیں کوئی علمی شغف نہ ہوتا۔
تمام اشیائے خوردنوش کا ذائقہ ایک جیسا ہوتا تو ایک علاقے میں ضرورت سے زائد اشیاء کی پیداوار کی خرید و فروخت ممکن نہ ہوتی۔ لہٰذا معلوم ہوا یہ مختلف زبانیں، لہجے، اسلوب وغیرہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف مذاہب، گروہوں اور قوموں کی زبان میں تفریق پیدا کر دی ہے تاکہ ہر ایک کی الگ پہچان اور شناخت ممکن ہو سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الٰہی عطیہ ہے۔ زبان جو بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ وہ خاص صفت ہے جو انسان کو دوسرے زندہ عالم سے نمایاں کرتی ہے۔
Quran
قرآن پاک کی سورة الرحمن میں تخلیق انسان کے بعد جس پہلی بڑی نعمت خداوندی کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اس کے نطق و بیان کی قوت ہے یعنی زبانوں کا ظہور بھی انسانی معاشرے کے ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ قرآن کے نظریہ کی روشنی میں یہ قیاس آرائی غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ بابل کے مینار پر خدا نے انسانوں کو زبان کے اعتبار سے الگ کرنے کے لیے بگاڑ پیدا کیا جبکہ یہاں ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی بھی نفی ہوتی ہے۔ سننے میں تو یہ نظریہ بڑا ہی دلچسپ ہے اور اسی لیے اس پر نہ صرف سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں بلکہ متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس وقت دنیا میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر زبان اپنے مطالب اور گرائمر رکھتی ہے اور ہر زبان کی ادائیگی اور لہجہ بھی مختلف ہے۔ یہ زبانیں زیادہ تر قوموں اور خطوں کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں مگر کچھ زبانیں ایسی ہیں جو ایک سے زیادہ قوموں اور خطوں میں بولی جاتی ہیں۔ آج انسان جس ترقی پر پہنچا ہے اس میں زبان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اب یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ روئے زمین پر جس قدر مختلف زبانیں بولنے والے لوگ، قبائل اور قومیں رہتی ہیں اگر سب ایک انسان کی اولاد ہیں تو ان اَولین انسانوں کی پہلی زبان کونسی تھی۔
عبرانی، سریانی، عربی اور سنسکرت زبانوں کا شمار دُنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے مگر بنی نوع انسان کی پہلی زبان کے بارے میں تاریخ کی کتابیں اختلافات سے بھری پڑی ہیں۔ قرآن کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو جو چیز دوسروں سے نمایاں کرتی تھی وہ زبان کا علم تھا جس کی برتری نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلافت تک پہنچایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کی زبان عربی تھی لیکن جب انہوں نے اس درخت کا پھل کھایا کہ جس کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا تو عربی زبان ان سے چھین لی گئی اور وہ سریانی زبان بولنے لگے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر دی تو عربی زبان بھی انہیں دوبارہ عطاء کر دی گئی اور جب وہ جنت سے دنیا میں آئے تو ان کی زبان عربی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرتِ انسان نے ابتداء سے ہی ایک سے زائد زبانیں بولنا شروع کر دی تھیں اور پھر جب حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد سے دُنیا آباد ہونی شروع ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی نسل پروان چڑھائی جو دنیا میں چہار سُو پھیل گئی تو ان کو مختلف قبیلوں اور گروہوں میں بھی بانٹ دیا گیا۔ ان قبیلوں اور گروہوں میں جب دیگر زبانوں نے جنم لیا تو پھر ہر قوم اور ہر زبان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل بھیجے تاکہ وہ اپنی قوم کو ان کی اپنی ہی زبان میں احکام الٰہی کی تعلیم دے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو صحیفے اور کتابیں اپنے نبیوں پر نازل فرمائیں (یہ صحیفے اور کتابیں بہت سی ہیں جن کی گنتی یقینی طور پر معلوم نہیں البتہ ان میں جو چار کتابیں مشہور ہیں) ان میں توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر عبرانی زبان میں، زبور حضرت دائود علیہ السلام پر سریانی زبان میں، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل کی گئی جبکہ قرآن مجید حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عربی زبان میں اُتارا گیا۔
قرآن کریم میں مختلف قوموں اور قبیلوں کی ہدایت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ یقیناً ان میں بیشتر انبیاء کی زبانیں بھی مختلف ہوں گی اور اُن پر جو آسمانی صحیفے نازل ہوئے وہ بھی کسی ایک زبان تک محدود نہیں ہوں گے۔ آج مسلمانوں کی سب سے بڑی زبان عربی ہے لیکن ساتھ ہی اُردو اور فارسی جیسی کئی چھوٹی زبانیں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح عبرانی اگر اہلِ کتاب کی زبان ہے تو ساتھ ہی انگریزی، سپینش اور فرانچ وغیرہ بھی بولی جاتی ہیں۔ سنسکرت ہندوستان کی قدیم زبان سمجھی جاتی ہے۔ اہلِ ہنود کے قدیم مذہبی، فکری اور تاریخی ادب کا بڑا حصہ اسی زبان میں لکھا گیا ہے۔
فی زمانہ گو کہ یہ زبان زندہ نہیں رہی تاہم اس سے ہندی، پراکرت اور پالی برج نے جنم لیا۔ دُنیا میں ہزاروں زبانوں کا پیدا کرنا یقینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں صرف اپنی زبان اور اپنے لہجے سے پہچان لیا جاتا ہے کہ یہ شخص فلاں ملک اور علاقہ کا باشندہ ہے اور صرف زبان ہی اس کا مکمل تعارف کرا دیتی ہے۔