کبھی ذہن میں یہ خیال آتا ہے۔۔۔ کہ کوئی نہیں ہے اپنا۔۔۔ ہر انسان خود اپنے لیے جی رہا ہے۔۔۔ سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے۔۔۔ کہ روزِ قیامت نفسا نفسی کا عالم ہوگا لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ آج ہی قیامت کا دن ہے۔۔۔ ہر طرف نفسانفسی ہی چل رہی ہے۔۔۔ ہر ایک کو صرف اپنی سوجی ہے۔۔۔ کسی دوسرے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔۔ ان میں مَیں بھی شامل ہوں اور آپ بھی۔۔۔ میں اکثر سوچتا ہوں۔۔۔ اس ملک میں جتنی تعداد میں نئی گاڑیاں وجود میں آتی ہیں۔
اتنے ہی زیادہ ان گاڑیوں کے گرد جمع ہونے والے بھکاری بھی وجود میں آ جاتے ہیں۔۔۔ اس ملک میں جتنا سخت احتساب ہونے لگتا ہے۔۔۔ اتنا ہی رشوت کے ریٹ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔۔۔ صحت کے لیے جتنا زیادہ بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔ اتنے ہی ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے، دم توڑتے مریض نظر آتے ہیں۔۔۔ میں اکثر سوچتا ہوں!۔۔۔ اس ملک کی قیادت معاشی ترقی کا ذکر کرتے نہیں تھکتی لیکن ہمیں میلے کچیلے، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس گندگی کے ڈھیروں میں رزق تلاش کرتے بھوک سے نڈھال انسان بھی نظر آتے ہیں۔
میں اکثر سوچنے لگتا ہوں ۔۔۔ کہ نہ جانے کتنے ہی چراغ اس مملکت خداداد کے قائدین کی طرف سے ہر روز روشن مستقبل کی پیشگوئیوں سے مایوس ہو کر بجھ گئے ہیں۔۔۔ ہر طلوع ہوتا سورج انسانوں کو جانیں دیتا دیکھتا رہا۔۔۔ مگر ان کی چیخیں ہمارے قائدین کی آسائشوں میں کبھی دخل نہ ڈال سکیں۔۔۔ ان کی آہیں کبھی لگژری گاڑیوں کے بند شیشوں کو عبور نہ کر سکیں۔۔۔ اور ان کے آنسو کبھی کسی ایوان کا موضوعِ بحث نہ بن سکے۔۔۔ کیوں کہ حکمران ہوں یا عوام ہر طرف بے چینی کے سماں ہے۔
جب کبھی آپ کو تنہائی میسر آ جائے تو اپنے شب و روز کا جائزہ ضرور لیں۔۔۔ اپنے آس پاس ظہور پذیر حالات کو غور سے دیکھیں اور اس بات کو کبھی تنہائی کے لمحات میں ضرور سوچیں کہ ہمارے ماحول میں اور خود ہمارے اندر اتنی بے چینی کیوں ہے؟ ۔۔۔ جن کے پاس وافر مقدار میں رزق کی فراوانی ہے وہ بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں اور جو آب و دانہ کے محتاج ہیں وہ بھی بے اطمینان نظر آتے ہیں۔
Pakistani Peoples
پیدل چلنے والا بات بات پر کھانے کو دوڑتا ہے اور مرسڈیز والا بھی بے تاب لگتا ہے۔۔۔ جن کے پاس حکومت ہے وہ بھی ڈر اور خوف کے سائے تلے زندگی بسر کر رہے ہیں اور جو عوام ہیں وہ بھی سکون سے محروم ہیں۔۔۔ جو گھر سے نکلتا ہے اس کو اُمید نہیں ہوتی کہ وہ واپس گھر بھی پہنچ سکے گا کہ نہیں۔۔۔ اب تو کبھی اخبار پڑھنے کو بھی دل نہیں کرتا کیونکہ اخبارات میں جب روزانہ قیمتی جانوں کے ضیاع کا تذکرہ ہو تو دِل کو بہت دُکھ ہوتا ہے۔
آخر یہ اتنی دہشت گردی صرف ہمارے ملک میں ہی کیوں ہے؟۔۔۔ آخر بے چارے عوام ہی کیوں اس کی لپیٹ میں آتے ہیں؟۔۔۔ وہ غریب جس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ رات کا چولہا جلایا جائے وہ بھی خوف کے سائے میں دبا ہوا ہے۔۔۔ آخر ایسا کیوں ہے؟۔۔۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ سچی خوشی کی کونپلیں ہمارے اندر سے پھوٹنا بند ہو گئی ہیں۔۔۔ چہروں پر رونق نہیں۔۔۔ دلوں میں بے نام سا خوف ہے۔۔۔ ہر شخص دوسرے سے یوں دامن بچاتا ہے جیسے اس کو جانتا تک نہیں ہو۔۔۔ خرابی کہا ہے؟۔۔۔ کہاں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں؟۔۔۔ کیا ہم راستے سے بھٹک گئے ہیں؟۔۔۔۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہم کو روزانہ جھنجھوڑتے ہیں۔۔۔ اس بے چینی اور اضطراب سے جتنا نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی اس میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔۔۔ مساجد بھی آباد کرتے ہیں۔۔۔ اس کے باوجود بھی ہمارے دِلوں میں سکون کی کونپلیں نہیں کھلتیں۔۔۔کوئی اُمید بھر نہیں آتی۔۔۔ آخر اس اداسی کی کوئی تو وجہ ضرور ہوگی۔۔۔ کب اس عوام کو سکون نصیب ہوگا؟ ۔۔۔ ہماری زندگیوں میں سکون کیسے واپس لایا جا سکتا ہے۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے بعض اوقات تو عقل مائوف ہو جاتی ہے۔۔۔ اخبارات اٹھاتے ہیں تو چیختی، چنگھاڑتی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔۔۔ ٹی وی چینل کھولتے ہیں تو لاشیں اور خون دیکھ کر آنکھوں سے بے اختیار اشک بہنے لگتے ہیں۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور ہم اس آگ کے حصار میں ہیں۔۔۔ آخر یہ کربناک وقت کب تھمے گا؟۔۔۔ کبھی تو وہ سورج طلوع ہوگا جس کے ساتھ زندگی کی تمام رونقیں بھی طلوع ہوں گی۔۔۔ یہ پریشانی اور خوف کے بادل کب ہم کو سکون کا سانس لینے دیں گے۔۔۔ اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ آئیں اللہ کے حضور توبہ کر لیں۔۔۔ اب حالات اس اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں کہ تباہی اور بربادی سے محفوظ رہنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سچے دل سے توبہ۔۔۔ اس کے بغیر اب کچھ نہیں بدلے گا۔۔۔ ہر شخص سوئے ایمان کو جگا لے۔۔۔ راستے آسان اور صاف ہو سکتے ہیں۔۔۔ ایک سچی توبہ ایسی خوشی اور اطمینان دے سکتی ہے جو لاکھوں اور کروڑوں سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
ہمارے حالات صرف اور صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے بدل سکتے ہیں۔۔۔ جب ہم عیب جوئی کے بجائے اپنے رب سے تعلق مضبوط کر لیں گے۔۔۔ جب ہم خود کو بدل ڈالیں گے تو معاشرے میں عدل ہوگا۔۔۔ سکون ہوگا۔۔۔ ہر ایک کی عزت محفوظ ہوگی۔۔۔ اچھے حکمران نصیب ہوں گے۔۔۔ رزق کی فراوانی اور برکت عام ہو جائے گی۔۔۔ دل کدورتوں اور نفرتوں سے پاک ہو جائیں گے۔۔۔ یہ خوف کے بادل چھٹ جائیں گے ۔۔۔ اور پھر یہود و ہنود کی شکست ان کا مقدر بن جائے گی۔
ہمارے حالات صرف اور صرف اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے سے بدل سکتے ہیں۔۔۔ تنگی اور وسعت کے نقشے اللہ کی طرف سے بنتے ہیں۔۔۔ کیوں نہ اس ذات کو منالیں جو بگڑی کو سنوار سکتی ہے۔۔۔ صرف ارادے اور کوشش کی ضرورت ہے۔۔۔ وہ اللہ کی ذات ہمارے لیے سارے سکون کے دروازے کھول دے گی۔۔۔ انشاء اللہ! اور پھر سکون کا ایسا دریا موجزن ہوگا کہ جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ اور پھر خوف کے سائے کبھی بھی ہمارے قریب نہیں بھٹکیں گے۔ آئیں! اس اللہ کو آج منالیں اور راضی کرلیں کہ کل پھر شاید یہ وقت ہم کو نصیب نہ ہو سکے۔