تحریر : سید توقیر زیدی وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے دورہ ترکمانستان کو ترکمانستان’ افغانستان’ پاکستان’ بھارت گیس پائپ لائن کے ذریعے وسطی ایشیاء کو جنوبی ایشیاء کے ساتھ ملانے کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے جس سے اس روٹ پر تمام ممالک کو اقتصادی فوائد حاصل ہونگے۔ انہوں نے اشک آباد میں اپنے ہمراہ ترکمانستان آنیوالے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ گیس پائپ لائن علاقے کی آدھی آبادی کی زندگی میں معاشی انقلاب لے کر آئیگی’ اسکے ساتھ سڑک اور ریل کا رابطہ بھی بنایا جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ محض روس ہی نہیں بلکہ علاقے کے دوسرے ممالک نے بھی اس میگاپراجیکٹ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے روسی اقدام کو خوش آمدید کہا ہے جبکہ ہم دوسرے ممالک کی شمولیت کا بھی خیرمقدم کرینگے جس سے اس منصوبے کو توسیع ملے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت تاپی منصوبے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تاپی اور سی پیک کے باہمی اشتراک سے فوائد مزید بڑھ جائینگے۔ بعدازاں انہوں نے ترکمانستان کے صدر قربان علی بردی محمدوف سے ون آن ون ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ¿ خیال کیا۔ اس موقع پر دونوں ممالک میں گیس پائپ لائن اور پاکستان ترکمانستان فضائی رابطہ دوبارہ قائم کرنے کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم ہا?س سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے پاکستان اور پورے خطے میں ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خطہ کی آبادی کا مستقبل راہداری سے منسلک ہے۔ اگر کوئی ملک اس میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتا ہے تو پاکستان اس کا خیرمقدم کریگا۔
ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے اور درپیش اقتصادی مسائل کے پیش نظر خطے کے کسی بھی ملک سے معاونت حاصل کرنا ہماری ضرورت ہے اور باہمی اشتراک سے کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرنا یا کسی ترقیاتی منصوبے میں شامل ہونا ہماری ضرورتوں اور مفادات سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس وقت ہمیں توانائی کے سنگین بحران کا بھی سامنا ہے جس کے باعث ہماری معیشت کا پہیہ جامد ہو کر رہ گیا ہے۔ اس تناظر میں خطے کے ممالک بالخصوص پڑوسی ممالک کے ساتھ توانائی کے حصول کے اور اقتصادی ترقی سے متعلق معاہدے کرنا ہماری معیشت کے استحکام میں ممدومعاون ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے دورہ¿ ترکمانستان کے موقع پر ترکمانستان اور دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ گیس پائپ لائن اور توانائی کے دوسرے منصوبوں کیلئے معاہدوں کا عندیہ دیا ہے اور روس کی سی پیک کا حصہ بننے کی خواہش کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے گرم پانیوں تک رسائی دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے تو یہ ملکی ترقی و استحکام کے حوالے سے خوش آئند پیش رفت ہے۔
Pak-China Economic Corridor
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے نے جہاں پاکستان کی اقتصادی ترقی’ عوام کی خوشحالی اور ملک کے استحکام کی بنیاد رکھی ہے وہیں خطے میں پاکستان کی اہمیت بھی بڑھا دی ہے جس کا ثبوت خطے کے تمام ممالک کی جانب سے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار ہے۔ اگر ایران بھی’ جسے اپنی چاہ بہار پورٹ کے ساتھ خطے کے دوسرے ممالک کو منسلک کرنے کی ضرورت ہے’ سی پیک میں شمولیت کو ترجیح دے رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ اس خواہش کا اظہار بھی کر چکا ہے تو اس سے ہی سی پیک کی افادیت و اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لئے سی پیک کی بنیاد پر پاکستان کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے جبکہ ہمارے روایتی دشمن بھارت کو گوادر پورٹ اور سی پیک کے ذریعے پاکستان کی ممکنہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور وہ اس منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کے انتہائی گھٹیا حربوں اور گھناونے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے جس نے اس مقصد کے تحت اپنی ایجنسی ”را” میں باقاعدہ ایک ڈیسک قائم کررکھا ہے جو اربوں روپے کی فنڈنگ کے ساتھ اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کیلئے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ مودی سرکار نے کنٹرول لائن پر سخت کشیدگی کی فضا پیدا کرکے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
اس تناظر میں تو ہمیں اپنے اس مکار دشمن کی ہر سازش پر نظر رکھنے اور اس کا بروقت توڑ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری سلامتی اور اقتصادی ترقی و خوشحالی کیخلاف اسکے سازشی منصوبے روبہ عمل نہ ہوسکیں۔ مگر یہ انتہائی تشویشناک اور افسوسناک صورتحال ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ترکمانستان جا کر نہ صرف ترکمانستان’ پاکستان’ افغانستان گیس پائپ لائن کے منصوبے میں بھارت کی شمولیت کا عندیہ دے رہے ہیں بلکہ وہ تاپی گیس منصوبے میں پاکستان بھارت مشترکہ سرمایہ کاری کا اعلان کرکے ملکی مفادات اور قومی امنگوں کو بھی مجروح کرتے نظر آئے۔ اور تو اور انہوں نے تاپی گیس کی وساطت سے سی پیک میں بھی بھارت کی شمولیت کی خواہش کا اظہار کردیا جو اس منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کی بھارتی گھناونی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے مترادف ہے۔
یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ 70ء کی دہائی میں گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کی سوویت یونین کی منصوبہ بندی ہی اسکی امریکہ کے ساتھ سردجنگ پر منتج ہوئی تھی جس میں پاکستان نے عملاً امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا اور افغان مجاہدین کی سوویت فوجوں کے ساتھ اڑھائی تین سال تک جاری رہنے والی گوریلا جھڑپوں نے سوویت یونین کے ٹکڑوں میں تبدیل ہونے کی راہ ہموار کی۔ آج اسی سوویت یونین کی مرکزی ریاست روس کی ہم نے گرم پانیوں تک رسائی قبول کرلی ہے جو اس وقت علاقائی تعلقات کی حکمت عملی میں ہمارے بہترین مفاد میں ہے۔ کیونکہ اس سے خطے میں امریکہ کی جانب سے بھارت کے ذریعے بگاڑا گیا طاقت کا توازن قائم ہو جائیگا اور اس خطے پر بزور غلبہ حاصل کرنے کی امریکی منصوبہ بندی پر بھی زد پڑیگی’ اس تناظر میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ہمیں اپنی اقتصادی ترقی کیلئے اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے چین اور روس سے مکمل تعاون حاصل ہو رہا ہے اور ایران بھی سی پیک میں شمولیت کی خواہش کے ساتھ ساتھ عملاً ہمارے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے میں بھی شریک ہے تو پھر وزیراعظم کو ایسی کیا مجبوری لاحق ہوئی ہے کہ وہ سی پیک کو سبوتاڑ کرنے کی منصوبہ بندی کرنیوالے مکار دشمن بھارت کو اسی منصوبے میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں اور ترکمانستان’ افغانستان گیس پائپ منصوبے میں بھی بھارتی شمولیت انہوں نے قبول کر رکھی ہے۔
اصولی طور پر تو حکومت کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کو ترجیح دینا چاہیے اور اس حوالے سے اب کوئی امریکی دبا? یا ڈکٹیشن قبول نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہم نے توانائی کے بحران کی بنیاد پر اپنی ضرورت کے تحت ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تھا جسے ایران نے اپنی سطح پر پایہ تکمیل کو بھی پہنچا دیا۔ اب صرف ہماری جانب سے گیس پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس کے ساتھ ہی یہ منصوبہ اپریشنل ہو جائیگا۔ اسکے برعکس ترکمانستان سے افغانستان کے راستے لائی گئی گیس پائپ لائن ہماری معیشت پر بڑا بوجھ بننے کے ساتھ ساتھ بھارتی نیت کے فتور کے باعث مستقل طور پر خطرات میں گھری رہے گی کیونکہ بھارت کسی وقت بھی اس پائپ لائن کو تباہ کرنے کی شرارت کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں ترکمانستان اور دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ دوسرے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے معاہدے ضرور کئے جائیں مگر گیس پائپ لائن کا صرف ایران کے ساتھ طے پانے والا منصوبہ ہی ہمارے بہترین مفاد میں ہے جو ہماری ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں اسلامک بلاک کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔ ہمیں آج صرف سی پیک کو مضبوط کرنا ہے اور اس کیخلاف بھارتی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ یہ منصوبہ بلاشبہ ملکی ترقی’ اقتصادی استحکام اور قومی خوشحالی کی نوید لے کر آرہا ہے۔ اس میں بھارت کو شمولیت کی دعوت دے کر اپنی اقتصادی ترقی کا سفر کھوٹا نہ کریں۔