تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا میرا بیٹا رن مرید ہے ، جو کچھ لاتا ہے بیوی کو نہ دے تو اُس کو سکون نہیں ملتا ۔ مجھے میرے بیٹے نے کبھی پوچھا ہی نہیں ، ہر وقت بیوی کے گیت گاتا ہے ، بیوی کی اجازت کے بغیر تو وہ حال و حوال تک نہیں پوچھتا، مائی فُل اسٹاپ لگائے بغیر بولی جا رہی تھی اور کلینک پر سناٹا چھایا ہوا تھا حالانکہ کافی رش تھا ابھی مائی کا نمبر آنے میں پانچ چھ مریضوں کی باری تھی میں مریض بھی چیک کر رہا تھا اور مجھے اماں جان پر ترس بھی آیا ہوا تھا کہ مائی کا کیسا بیٹا ہے جو بڑھاپے میں بھی مائی کا خیال نہیں رکھتا۔ میرا دماغ بڑی اماں کے دکھ اور درد کو محسوس کر ہی رہا تھا کہ ۔۔۔بڑی ماں زور زور سے اپنے بیٹے کو کوس رہی تھی کہ اچانک اماں جان نے اپنے داماد کی تعریف کرنا شروع کر دی کہ جو فرض میرے بیٹے کا تھا وہ میری بیٹی کر رہی ہے۔ اللہ بھلا ہو میرے داماد کا جس نے میری چاند سی بیٹی کو اپنی ملکہ بنایا ہوا ہے ۔یہ میرا دماد ہی ہے جس نے میری خدمت کے لئے میری بیٹی کو میرے پاس چھوڑا ہوا اللہ بھلا کرے میری بیٹی اور میرے دماد کا ، یہ میرا دماد نہیں بلکہ میرا بیٹا ہے۔
اللہ کرے سب کا دماد میرے دماد جیسا ہو۔ ہر ماہ اپنی تنخواہ لاکر سیدھی میری بیٹی کے ہاتھ پر رکھتا ہے ۔۔۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ میرے لئے شوگر فری جوس ۔اور دنیا جہاں کی ہر سہولت میرے کہنے سے پہلے مہیا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔اس طرح کی باتیں کرتے کرتے اماں جان کا نمبر آیا اور دوا لیکر کلینک سے چلی گئی مگر میرے دل و دماغ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال چھوڑ گئی کہ جو کام دماد کر رہا ہے وہ کام بیٹا کرے تو اعتراض کیوں ؟اگر دماد ساس کی خدمت کرے یا بیٹا ساس کی خدمت کرے یہ فرق کیوں اور کس نے پیدا کیا ہے ؟ کیا بہو عورت نہیں اگر ساس عورت ہے ؟ کیا بہو کے حقوق مرد نے غضب کئے ہیں یا ایک عورت نے ۔۔۔۔۔۔ کیا یہ ایک ساس بہو ؟ ایک ساس دماد ؟ یا ہر گھر کا مسئلہ ہے؟۔
کیا جو عورت ہم بیاہ کر لاتے ہیں ۔۔۔ اس کا کام کام صرف خدمت کرنا ہے یا کچھ ا ور بھی ہے ۔ کیا مائی کا بیٹا غلط ہے؟ یہ ہم کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے ۔۔۔۔۔)عورت کی عظمت ، عورت کے مقام کو سمجھنے کے لئے نامور دانشوروں کے اقوال سے استفادہ حاصل کرنا چاہئیے جیسا کہ شیکسپئیر نے کہا تھا کہ عورت ایسی کتاب، تصویر اور دبستان ہے کہ جس میں ساری دنیا بستی ہے، جو تمام دنیا کی پرورش اور تربیت کرتی ہے۔ ارسطو کا قول وہ پیمانہ ہے جو ترقی یافتہ قوموں کی تعمیر و ترقی کا شاندار نمونہ ہے اور وہ کہتا ہے ”عورت کی ترقی اور تنزلی پر قوم کی ترقی یا تنزلی کا انحصار ہوتا ہے”۔سقراط کا قول ہے ”مرد آنکھ ہے تو عورت اس کی بینائی، مرد پھول ہے تو عورت اس کی خوشبو۔ اگر دنیا میں عورت نہ ہوتی تو آنکھ بے رنگ، شاعری بے کیف اور ادب پھیکا ہوتا۔
Wife and Husband
عورت کا دل ہمیشہ چاند کی طرح بدلتا رہتا ہے لیکن اس کا باعث ہمیشہ مرد ہوتا ہے۔عورت گھر میں دوست ہے، پردیس میں علم و ہنر۔ عورت زخم معاف کر دیتی ہے مگر خراشوں کو نہیں بھولتی”۔گوئٹے نے کہا ہے ”میرے خیال میں مرد جھوٹ بولنے کیلئے پیدا ہوئے اور عورتیں یقین کرنے کے لئے”۔لارڈ بائرن کہتا ہے کہ ایک خوبصورت عورت میرا پسندیدہ مہمان ہے۔ عورت ایک ایسا پھول ہے جو اپنی خوشبو سے مرد کے چمنستانِ حیات کو مہکا دیتی ہے۔عورت کے محبت بھرے دل سے اچھی چیز دنیامیں نہیں ہے۔بچے کی پیدائش وہ خوشگوار سزا ہے جو عورت کو برداشت کرنا ہی پڑتی ہے۔عورت مرد سے زیادہ محنتی، سمجھدار اور نیک ہے۔بھلائی کے کام اس سے اس طرح سرزد ہوتے ہیں جیسے آسمان سے بارش برستی ہے۔عورت زمین کی دلکش اور جادو اثر نظم کا نام ہے۔
روسی ضرب المثل ہے کہ دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے۔عورت سے باتیں کرتے وقت وہ سنئے جو اس کی آنکھیں کہتی ہیں۔شیکسپئر کا ایک اور قول ملاحظہ کریں۔”کنواری لڑکی کی زبان نہیں ہوتی، صرف خیالات ہوتے ہیں۔ جب عورت تنہائی میں گنگنانے یا مسکرانے لگے اور بار بار اس کے ہاتھ بالوں سے کھیلنے لگیں تو سمجھ لیں کہ اسے کسی سے محبت ہو گئی ہے”۔البانیہ کی ایک کہاوت ہے عورت مرد کا رشتہ ہی انسان کا سب سے پہلا سماجی رشتہ ہے۔شیکسپئر نے ایک اور جگہ کہا ”اے عورت تو مجسمہ جلوہ گری ہے اور دنیا پر بغیر فوج کے حکومت کرنا تیرا ہی کام ہے”۔ جان ملٹن کا قول دیکھئے ”عورت کے آنسوؤں کو بند کرنا سمندر کے غضب ناک طوفان کو روکنے سے مشکل ہے”۔ نپولین نے کہا ”یہ صحیح ہے کہ میں نے ملکوں اور تاجوں کو روند ڈالالیکن یہ کس درجہ ماتم انگیز حقیقت ہے کہ میں ایک عورت سے شکست کھا گیا اور اس کے دل کو فتح نہ کر سکا”۔ ایک ایرانی کہاوت ہے کہ عورت کا پیار اس چشمے کی مانند ہوتا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔
حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی تصویر کائنات میں رنگ و نور کا نظارہ فرمائیں ”جو شخص عورت کی تعظیم نہیں کرتا وہ سب سے پہلے اپنی ماں، بیٹی، بہن، بیوی کے وجود کی نفی کرتا ہےعورت کا مقام بہت بلند ہے۔ عورت خود تشہیری حربوں کی آڑ میں مصنوعات کی مانند ارزاں نرخ پر ملکی و غیر ملکی منڈیوںمیں اشتہار بن گئی ہے اور اپنی نسوانی عظمت گنوا بیٹھی ہے۔عورت کے چار روپ یا رشتے ہیں چاروں رشتہ کی عظمت اگر ملی ہے تو درِ مصطفےٰ ۖ سے ملی ہے ۔ اور ایسی ملی ہے کہ قیامت تک ساری دنیا مل کر بھی ” عورت ” کو وہ عزت دینا چاہئے بھی تو نہیں دے سکتی جو سردارالانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ نے عورت کو اُس وقت دی تھی جب۔۔۔ عورت کا وجود منحوس، سمجھا جاتا تھا، جب عورت کو کتا اور بلی سے بھی کم درجہ پر رکھا جاتا تھا جب خاوند کی فوتگی پر عورت کو زندہ جلایا جاتا تھا اور تو اور ۔۔۔۔۔۔ عورت ( بچی کی پیدائش پر ماء کو سزا اور بچی کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔۔۔ ایسے وقت میں رسول خدا ۖ نے عورت کو۔۔۔۔۔چاروں رشتوں میں عظیم بنادیا با ت کر رہا تھا عورت ( بیوی) کی بیوی کی کیا فضیلت بیان ہوئی ہے فرمان ِ مصطفےٰ ۖ سے دلوں کو منور کریں۔
Islam
اسلام نے عورت کے بیوی ہونے کی حیثیت سے بھی بڑے حقوق بیان کئے ہیں اور شوہر پر ان کی آدائیگی کو ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: خبردار عورتوں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرو۔ وہ (اللہ کی طرف سے) تمھارے زیردست کنیزیں ہیں۔ متفق علیہزیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھرکی عورتوں کے لئے اچھا ہے۔ ابوداؤد، ترمذی، مسند احم اسلام نے مرد کو حاکم بنایا ہے تو اس میں اللہ کی قدرت ہے ۔آجکل ہمارے دین محمدی پر ہر روز نئے نئے فتنے پیدا ہو رہے ہیں ان میں ایک فتنہ ہے جو عورتوں کو سڑکوں پر لاکر ” عورت ” کے حقوق نہیں بلکہ عورت کو ڈیکوریشن پیس کے طور پر پیش کر کے شیطان اور شیطان کے چیلوں کی پیروی کر رہا ہے ۔ یہ گروپ عورت کی آزادی کے نام پر عورت کی بربادی چاہتا ہے ۔پنجاب اسمبلی میں خواتین پروٹیکشن بیل 2016 اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہود و نصریٰ اور کفار کا اس بات پر پختہ یقین ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت بھی ہے۔غیر مسلمان چاہتے ہیں کہ مسلمان عورتیں بھی غیر مسلم عورتوں کی طرح اپنے بوائے فرینڈز یا لائف پارٹنر( بغیر نکاح) کے زندگی گزاریں اور اس تباہی و بربادی کو خواتین کی آزادی کا نام دیتی ہے۔ یہ کام مختلف ممالک اور علاقوں میں مختلف این جی اوز کے سپرد کیا گیا ہیں اور ان کے پیچھے ”دشمنانِ اسلام ” ہے۔مس کیرج اور ابارشن ہر عورت ( شادی شدہ و غیر شادی شدہ ) کو حق دیا جائے جب چاہے اور جہاں چاہے عورت کروا سکتی ہے۔ یہ کام غضبِ الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسلام امن اور سلامتی و بھائی چارے کا دین کیا کہتا ہے فیصلہ خود کریں۔
حضرت ابوھریرہ رض اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے توخاوند اس پر رات ناراضگ کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں) صحیح بخاری حدث نمبر (3065) صحیح مسلم حدیث نمبر (1436)کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے) صحیح بخاری حدیث نمبر (4899) صحیح مسلم حدیث نمبر (1026)۔
ALLAH
حضرت سلیمان بن عمرو بن احوص بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ حجة الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اوروعظ ونصیحت کرنے کے بعد فرمایا:عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اورمیری نصیحت قبول کرو، وہ تو تمہارے پاس قیدی اوراسیرہیں، تم ان سے کسی چیزکے ما لک نہیں۔ لیکن اگروہ کوئی فحش کام اورنافرمانی وغیرہ کریں توتم انہیں بستروں سے الگ کردو، اورانہیں مار کی سزا دولیکن شدید اورسخت نہ مارو، اگر تووہ تمہاری اطاعت کرلیں توتم ان پرکوئی راہ تلاش نہ کرو، تمہارے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اورتمہاری عورتوں کے بھی تم پر حق ہیں۔
جسے تم ناپسند کرتے ہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اورنہ ہی اسے اجازت دے جسے تم ناپسند کرتے ہو، خبردار تم پر ان کے بھی حق ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اورانہیں کھانا پینا اوررہائش بھی اچھے طریقے سے دو) سنن ترمذی حدیث نمبر (1163) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر (1851) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔۔۔۔۔بات کہا کی کہا چلی گئی ہے ۔۔۔۔۔ قصہ مختصر عورت کے وہ ہی حقوق ہے جو 14 سو سال پہلے اللہ پاک کے پیارے نبی ۖ کی معرفت مل چکے ہیں۔
آج کوئی اگر حقوق کی بات کرتا ہے تو اس کا سیدھا سادا جواب ہے ۔۔۔۔ کہ وہ ہمارے ایمان کو خراب کرنا چاہتا ہے یا پھر اس نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔۔۔ کاش وہ مائی صاحبہ جو دماد کی تعریف اس وجہ سے کر رہی تھی کہ اُس کے دماد صاحب نے مائی صاحبہ کی بیٹی کو اس حق دیا تھا ۔ اور وہ ہی مائی صاحبہ اپنے بیٹا کی بھی اسی وجہ سے تعریف کرتی کہ اس کے بیٹے نے اس کی بہو کو بھی اس کا حق دیا ہے۔ جب ایسا ہو جائے گا۔۔۔۔۔ تب ہر گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا۔