ایکواڈور (جیوڈیسک) وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایکواڈور کی طرف سے ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر جولیان آسانج کی سیاسی پناہ ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس سروس (ایم پی ایس) کے مطابق،’’برطانوی پولیس نے جولیان آسانج کو گرفتار کر کے سینٹرل لندن کے پولیس اسٹیشن منتقل کردیا ہے، جہاں وہ اس وقت تک رہیں گے جب تک انہیں ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔ میٹروپولیٹن پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود کو عدالت کے حوالے نہ کرنے پر جولیان آسانج کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘
واشنٹگن پہلے ہی آسانج کی امریکا حوالگی کے لیے ایک درخواست جمع کرا چکا ہے۔ وہ گزشتہ سات برسوں سے لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانخے میں موجود تھے۔ تاہم گزشتہ مہینوں کے دوران میزبان اور مہمان کے تعلقات میں کشیدگی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں ایکواڈور کی جانب سے آسانج کو ملنے آنے والوں کی تعداد کو کم کر دیا گیا تھا اور ساتھ ہی آسانج کو دستیاب سہولیات کو بھی محدود کر دیا گیا تھا۔ ایکواڈور حکام نے 47 سالہ آسانج پر ایکواڈور اور دیگر ممالک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کا الزام عائد کیا ہے۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے جولیان آسانج کی گرفتاری کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے اسے آزادی اظہار کا ایک سیاہ باب قرار دیا،’’لندن میں ایکواڈور کے سفیر کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو سفارت خانے میں داخل ہونے کی اجازت دے کر ایک انعام یافتہ صحافی کو گھسیٹتے ہوئے گرفتار کرنے مناظر تاریخ کی کتابوں میں درج کیے جائیں گے۔‘‘
برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کے مطابق جولیان آسانج اب مزید ہیرو نہیں رہے اور اب ان کے مستقبل کا فیصلہ برطانوی عدالتیں کریں گی، ’’ کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ آسانج سات سال سے سچ سے چھپ رہے تھے۔‘‘
وکی لیکس کے بانی مبینہ جنسی زیادتی کیس میں سویڈن حوالگی سے بچنے کے لیے سات سال سے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے، تاہم ان کی سیاسی پناہ ختم کرنے کے اعلان پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
آسٹریلوی کمپیوٹر پروگرامر جولیان آسانچ نےسن 2006 میں وکی لیکس کی بنیاد رکھی اور سن 2010 میں انہوں نے اس وقت عالمی سطح پر توجہ حاصل کی جب وکی لیکس نے سابق امریکی فوجی چیلسا میننگ کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ دستاویزات شائع کیں تھیں۔
وکی لیکس کی جانب سے ایک ٹویئٹ کی گئی،’’ایکواڈور کی جانب سے ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر جولیان آسانج کی سیاسی پناہ کو ختم کیا گیا۔‘‘
برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے بھی اپنی ٹوئٹ میں جولیان آسانج کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا،’’وہ پولیس کی حراست میں ہیں اور برطانوی قانون کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے تعاون پر ایکواڈور کا شکریہ ادا کیا۔‘‘