تحریر: ارم فاطمہ لاہور دریچے سے چھن چھن کر آتی چاند کی روشنی کمرے کے نیم تاریک ماحول میں اجالے کا تاثر پیدا کرنے میں ناکام ہورہی تھی۔ کھڑکی کے ساتھ کرسی اور اس پر دراز اس کا خاموش وجود کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا اس کی افسردگی کو نمایاں کر رہا تھا۔یہ کوئی آج کی بات نہیں تھی۔یہ گذشتہ کئی سالوں سے اس کے ساتھ ہوتا آرہا تھا۔ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی اسے قربانی کے جانور کی طرح سجا کر اور ہدایات دے کر ایسے نا قدرے انسانوں کے سامنے پیش کیا گیا جو اپنے بے لاگ تبصروں کی کند چھری سے اسے ذبح کر رہے تھے۔وہ خالی الذہن اور بے جان روح کی طرح ان کے درمیان بیٹھی اپنی ذات کی نفی ہوتے دیکھ رہی تھی۔ وہ خواتین کبھی کبھی بسکٹوں اور کبابوں پر ہاتھ صاف کرتیں اور کبھی سموسہ اٹھا کر پلیٹ میں ڈالٹیں اور سوال کرتیں !
“” آپ کی بیٹی کی عمر کتنی ہے ؟ دیکھنے میں تو 26،27 سال کی لگ رہی ہے۔” “رنگ کچھ دبتا ہوا سا ہے۔ کم ہے۔ میرے بیٹے کی پہلی ڈیمانڈ ہی یہی ہے کہ لڑکی خوبصورت ہونی چاہیے۔میرا بیٹا ما شائ اللہ بہت گورا ہے۔ویسے تو سب صورتیں اللہ نے بنائیں ہیں۔” تبصرے کے ساتھ اپنی بات کا بھرم رکھنے کے لیے لوگ کیسے اللہ کا سہارا لیتے ہیں۔؟ وہ بس سوچ کر رہ گئی۔ اور اس بار بھی پھانسی کے منتظر قیدی کی طرح ثمرین کے گھر والے انتظار کی سولی پر لٹکا دیے گئے۔اس آزمائش سے گذرنے کے بعد اور گھر میں سب کی نظروں سے بچنے کے لئے وہ اپنے کمرے میں بند ہو جاتی اورآئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیتی !کس بات کی کمی ہے ؟ وہ آئینے سے سوال کرتی۔میرے ہاتھ خالی تو نہیں ہیں۔تعلیم کا ہنر اورگھر داری کا سلیقہ ہے۔اس خالق کائنات کے تمام فرائض ادا کرتی ہوں۔ کیا کم صورت ہونا میرا جرم ہے ؟
Dream
اسے شاید دنیا والوں کی نظروں سے اپنے آپ کو دیکھنا نہیں آتا تھا تبھی آئینہ اسے بہلا دیتا اور وہ پھر سے خواب بنے لگتیاور پھر سے نئی آزمائش کے لیے تیار ہو جاتی تھی۔ کبھی وہ سوچتی اس کے ذہن میں بھی تو سوال اٹھتے ہین۔کیا کبھی اسے یہ حق ملے گا کہ وہ بھی ان سے جواب مانگ سکے ان لوگوں سے جو اسے مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کر کے نا کردہ جرم کی سزا اس کے نصیب میں لکھ دیتے ہیں وہ بھی کبھی ان سے پوچھے !”جب آپ کے سامنے آپ کی بیٹی میں موجود ذات کی خامیان بتائیں جاتیں ہیں تب شاید آپ کو خیال آتا ہو کہ اس جرم کا ارتکاب آپ نے بھی کیا تھا۔کسی کی آنکھوں کے خواب توڑے تھے ؟ کسی بیٹی کی ہنسی چھین کر اسے آنسوؤن کے سمدر میں دھکیل دیا تھا ؟مگر ہر بار وہ یہ سوچ کر رہ جاتی۔ کئی دنوں سے ثمرین کو گھر والوں کے روئے میں پر اسراریت محسوس ہو رہی تھی۔وہ آپس میں باتچیت کر رہے ہوتے اسے دیکھتے تو خاموش ہو جاتے۔وہ کچھ سمجھ نہ پاتی۔اور کچھ دنوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ آذر اس کا بھائی کا رویہ بھی کچھ بدلہ ہوا ہے۔وہ اس سے پہلے کی طرح مذاق نہیں کرتا تھا۔ وہ ڈرائنگ روم میں آتی تو وہ اٹھ کر چلا جاتا تھا۔وہ کوئی بات کرنے کی کوشش کرتی تو مختصر جواب دے کر خاموش ہو جاتا۔ وہ اس کے روئیے کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
وہ بہت حساس ہو گئی تھی۔ہر اک بات کے بارے میں سوچ کر گھنٹوں اداس رہتی اور کبھی کبھی آنسوؤں سے رو کر دل کا بوجھ ہلکا کرلیتی تھیمگر وہ اس ساری صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ جانے اب زندگی اس کا اب اور کیا امتحان لینے والی تھی۔؟اس دن کچن میں جاتے ہوئے امی کے کمرے سے آنے والی آوازوں نے اسے معاملے کی تہہ تک پہنچا دیا۔کمرے میں امی ابو کے علاوہ بڑے بھائی اور بھابھی بھی موجود تھیں۔”ہمیں ان کی بات مان لینی چاہیے۔رشتہ اچھا ہے۔” امی کہہ رہیں تھیں “میں ادلے بدلے کا رشتہ کرنے کے حق میں نہیں۔وہ صرف اپنے مفاد کا سوچ رہے ہیں۔ایسے رشتے قائم نہیں رہتے ” ابو کی آواز آئی۔
Higher education
اسے یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ لڑکے والے اس شرط کے ساتھ ثمرین کا رشتہ قبول کرنے کو تیار تھے کہ وہ ان کی قبول صورت بیٹی کو اپنے آعلٰی تعلیم یافتہ بیٹے سے نبھا دیتے۔اس انکشاف نے اسے لرزا دیا وہ اس قدر بے مایہ تھی کہ اس کے خوبرو بھائی کو اس کے لئے قربانی دینی پڑے۔اپنے خوابوں کو چکنا چور کرنا پڑے۔آذر اپنی کولیگ کے رشتے کے لئے ماں باپ سے بات کر چکا تھا۔اور اب وہی گھر والے اسے قربانی دینے کے لئے مجبور کر رہے تھے۔اپنے کمرے کی رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھے اور اپنی سوچوں کو کاغذ پر منتقل کرتے ہوئے وہ بہت پر سکون تھیاس نے کچھ سوال اٹھائے تھے ؟مجبوری کے رشتے میں بنھے یہ بندھن کب دل سے نبھائے جا سکتے ہیں؟کیا رشتوں میں محبت اور اپنایت کے بجائے اب صرف “سودے ” ہوا کریں گے؟
“اپنے مفاد کے سودے، کسی کے خواب توڑنے کے سودے، ان نازک کانچ کی مانند بیٹیوں کے جذبات کے سودے “” خدارا کسی کی بیٹی کی آنکھوں میں بسے خوابوں کو رنگوں سے بھر دیں کل کوئی آپ کی بیٹی ککے خوابوں کی تکمیل کرے گا پھر شاید یہ معاشرہ ایک مثبت سوچ اور ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکے۔”یہ فیصلہ کرتے ہوئے وہ بہت پر سکون تھی۔اسے یہ سودا منظور نہیں تھا۔ایک لمحے کو اسے لگا وہ جدوجہد سے بھاگ رہی ہے۔مایوسی کفر ہے۔کہیں شاید امید کی کرن ملے۔وہ گھر والوں کو اپنے احساس اورسوچ سے آگاہ کر سکے مگر وہ یہ بھی جانتی تھی جلد یا بدیر اسے ان کے فیصلے پر سر جھکانا پڑے گا۔تب شاید وہ اپنے بھائی کے خوابوں کو روندنے کی مجرم ٹھہرے۔ممکن ہے اس کی قربانی کی مثال اوراس کی تحریر سے معاشرے کے افراد کے روئے اور ذہن بدل جائیں اپنی اس تحریر کو اخبار کے ادبی ایڈیشن کے پتہ پر ارسال کر کے اس نے موت کی آغوش میں پناہ لے لی