تحریر : شہزاد حسین بھٹی اسلام آباد میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی ملکی سیاست کے درجہ حرارت میں بھی نمایاں گرمی دیکھائی دینے لگی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی شاہراہ دستور سے دھرنا ختم کر کے شرکاء سے کہا ہے کہ انقلاب مارچ کا ایک مر حلہ مکمل ہو گیا ہے اسلیئے وہ گھر چلے جائیں اور اب ہر شہر میں دو دن دھرنا دیا جائے گا تجزیہ کاروں کے مطابق دھرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی شکست کو تسلیم کیاہے ۔ مگر دوسری جانب جو لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کی ہزئمیت تسلیم کر رہے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انھوں نے اپنے 67 دن کے طویل ترین تاریخی دھرنے کے ذریعے بنیادی حقوق کے حصول ،آئین و قانون سے آگاہی اور عوامی شعور کی بیداری کی لہر پیدا کی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ عوام کے ذہنوں میں نشوونما پا کر حقیقی انقلاب کا باعث بنے گی۔چونکہ انقلاب چند ہفتوں یا مہینوں میں نہیں آتا بلکہ بسا اوقات اسکے لیے سالوں درکا ر ہوتے ہیں ۔جسکی مثال انقلاب ایران کی ہے امام خمینی نے سالوں تک جلا وطنی میں رہتے ہوئے اپنی قوم کو اپنے حقوق کے حصول اور شعور ی طور پر بیدار کیا۔
ادھر دوسری جانب عمران خان اپنے دھرنے پر قائم و دائم ہیں اور اپنے دھرنے کو نواز شریف کے استعفیٰ اور عوامی حقوق کی فراہمی سے مشروط کیا ہے وگرنہ وہ اپنے کنٹینر میں ہی رہیں گے۔اس موسمی تبدیلی کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی نے بھی مزار قائد کراچی میں جلسہ کر کے اپنے وجود کے ہو نے کاقوم کو یقین دلایا ہے بلاول بھٹو نے اپنی سطحی دانش و عقل سے اپنی حریف سیاسی جماعتوں کے قائدین پر اندھا دھند الزامات کے تیر چلانے شروع کر دیئے ہیںجسکی وجہ سے پہلے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور بعد ازاں بلاول بھٹو کے بیانات سے ایم کیو ایم سیخ پا ہو گئی اور پیپلز پارٹی کو اسکے قائدین کے ہمراہ آڑے ہاتھوں لیا اور انکی ریشہ دوانیوں کو پریس کانفرنسوں کے ذریعے قا ئرین تک پہنچایا پھر سندھ حکومت ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہو ئے حسب روایت رحمان ملک دوبارہ سر گرم ہو گئے ہیںاور وہ دونو ں جماعتوںکے درمیان ہونے والی ڈویلپمنٹ کو ڈی فیوز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ ایم کیو ایم بھی ملکی صورت حا ل کوبھانپ گئی ہے اور وہ فصلی بیٹرے کی طرح پیپلز پارٹی سے الگ ہو کر مڈ ٹرم الیکشن کی طرف جانا چاہتی ہے ویسے روٹھنا اور دوبارہ حکو مت میں شامل ہونا ایم کیو ایم کی روایت رہی ہے ۔اب کی بار کیا ہو تا ہے وہ تو وقت ہی بتائے گا۔ سابق وزیراعظم سید یو سف رضاگیلانی کہتے ہیں مڈٹرم کی چابی ان کے پاس ہے وہ جب چاہیں مڈ ٹرم الیکشن کرادیں مگر افسوس کہ پیپلز پارٹی مڈٹرم کے لیئے تیا ر نہیں ہے اور جماعت اسلامی بھی مڈ ٹرم الیکشن کی حامی دیکھائی دیتی ہے لیکن انکا موقف یہ ہے کہ پہلے انتخابی اصلاحات ہوں اور پھر مڈٹرم ایکشن کرائے جائیں۔
Pakistan Elections
مسلم لیگ (ق) بھی جلسوں کے انعقاد کی طرف جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف نواز حکومت کو مڈٹرم الیکشن سے خوف آرہا ہے حالیہ ملتان کے ہونے والے ضمنی الیکشن نے حکو متی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے حکومت کو خطرہ ہے ۔کہ اگر مڈ ٹرم الیکشن ہو تے ہیں تو وہ کہیں اپنی ڈیڈھ سالہ حکومتی کارکردگی کی وجہ سے کلین سویپ نہ ہو جائیں مہنگائی کا عذاب بھی حکو مت کے سرہے لہذا حکو مت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی طرف توجہ مرکوز کر ے گی ۔نواز شریف نے اپنے وزراء اور عہدیداروں کو بھی سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ طاہر القادری کی واپسی اور دھرنو ں سے متعلق کو ئی بیان بازی نہ کریں ۔ایک خبر صحافتی حلقوں میں یہ بھی ہے کہ طاہر القادری کی ٹیم رحیق عباسی اور محمد نواز گنڈاپور کی عید سے قبل شہباز شریف سے ملاقات ہوئی تھی جسکی تفصیلات اب سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں جسکے مطابق یہ انقلابی دھرنا عید سے دس دن قبل ختم ہو جانا تھا ۔مگر صاحبزادہ حامد رضا نے فورا چوہدری بر ادران کو تما م تفصیلات سے آگاہ کیا جس پر چوہدری برادران نے ڈاکٹر طاہرالقادری پر اپنا دباؤ بڑھایا کہ وہ دھرنے ختم نہ کریں ۔مگر اب اچانک ڈاکٹرطاہرالقادری کے انقلاب مارچ اور دھرنے کے اختتام کے بعد دو دو دن ہر شہر میں دھرنے دینے پر چوہدری برادران اور صاحبزادہ حامد رضا اور مجلس وحدت المسلمین کے راجہ ناصر عباس اب طاہر القادری کے ساتھ نہیں ہیںاور تیئس تاریخ کو ایبٹ آباد میں ہو نے والے جلسے میں ڈاکٹر طاہر القادری اکیلے ہوںگے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا یوں اچانک دھرنے ختم کرنے پر شدید نقطہ چینی کی جارہی ہے اور اسے حکومتی ڈیل سے منسوب کیا جا رہا ہے ۔ناقدین کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ہمیشہ یہ روٹین رہی ہے کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر ثابت قدم نہیں رہتے یاد رہے کہ سترہ اگست کو انہوں نے کہا تھا کہ ہم انقلاب لائے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے اور جو واپس جائے گا اسے شہید کر دیا جائے اب ناقدین کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ڈاکٹر صاحب کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اپنے قائدین کے لیئے جان و مال فدا کرنے والے پارٹی ورکروں کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ لیڈر ہمیشہ اپنے قول وفعل سے پہچانا جاتا ہے اور جو لیڈر اپنے الفاظ کی پاسداری نہیں کر سکتے وہ عوامی نمائندگی کا حق بھی نہیں رکھتے۔
موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان پر صدق دل اور سنجیدگی سے غور کیا جائے اور انکو پورا کرنے کے لیے تمام سیا سی جماعتوں کے درمیان افہام و تفہیم کی فضاپیدا کی جائے یہی وہ طریقہ ہے کہ جس سے جمہوری اداروںکو مستحکم کیا جا سکتا ہے ملک اس وقت جن بحرانوں سے دو چار ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپس میں ہم آہنگی کی فضا پیدا کی جائے۔